اسلام آباد (پی این آئی) سینئر صحافی حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد کو توڑنے کیلئے ایک غیرسیاسی رابطہ کار نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں فاصلے کم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کو مرکز اور پنجاب کی حکومتوں میں حصہ دینے کیلئے تیار ہیں، جواب میں پیپلز پارٹی کی
طرف سے تحریک انصاف کو سندھ حکومت میں حصہ دیا جائے لیکن پیپلز پارٹی نے خاموشی سے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ یہ پیشکش قبول کرکے پیپلز پارٹی کو نیب کے خلاف اپنی زبان بند کرنا پڑتی اور اس کی حالت وہی ہوتی جو آج کل مسلم لیگ (ق) کی ہے۔ اسے نیب کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ کھل کر نیب کے خلاف بول بھی نہیں سکتے۔روزنامہ جنگ میں چھپے اپنے کالم میں حامد میر نے مزید لکھا کہ” مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پچھلے دنوں کوشش کی کہ نیب قانون اور ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی پر حکومت کے ساتھ اتفاق رائے قائم کیا جائے لیکن عمران خان نے ان دونوں جماعتوں کی طرف سے نیب قانون میں تجویز کی گئی تبدیلیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانین کو بھی مسترد کر دیا۔سوچنے کی بات ہے کہ ابھی عمران خان کے پاس سینیٹ میں اکثریت نہیں اور وہ اپوزیشن جماعتوں کو سانس نہیں لینے دے رہے اگر ان کے پاس سینیٹ میں بھی اکثریت آ گئی تو پھر وہ کسی کے بھی قابو نہ آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمینٹ کے اندر اور باہر عمران خان کے خلاف سردھڑ کی بازی لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ماضی کے کئی وزرائے اعظم کی طرح عمران خان کا بھی شاید یہ خیال ہے کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے کیونکہ جو انہیں اقتدار میں لائے ہیں ان کے پاس فی الحال دوسری کوئی چوائس نہیں لیکن سیاست میں کوئی بھی کسی کی مستقل مجبوری نہیں رہتا۔ ہماری سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں اور اب تو دوستی کی آڑ میں دشمنوں والے کام کرنے کو بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں