اسلام آباد(پی این آئی)وزارت صحت کے کون کون سے اسکینڈل ڈاکٹر ظفر مرزا کو فارغ کرنے کہ وجہ بن گئے؟ وزیر اعظم انہیں بہت پہلے فارغ کرنا چاہتے تھے لیکن دیر کیوں ہو گئی؟ تفصیل اس رپورٹ میں۔وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے استعفے کی وجوہات سامنے
آگئیں۔ڈاکٹر ظفر مرزا نے آج اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، جسے وزیراعظم عمران خان نے منظور کرلیا۔ذرائع کے مطابق ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھارت سے خلاف ضابطہ ادویات درآمد کرنے میں کردار ادا کیا۔ وزیراعظم کے حکم پر انکوائری کے دوران اس معاملے میں ڈاکٹر ظفر مرزا اور ایک مشیر کا نام آیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا اسلام آباد کے اسپتالوں اور میڈیکل اداروں کے سربراہ تعینات کرنے میں بھی ناکام رہے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ادویات ساز کمپنیوں کی ازخود قیمت بڑھانے کا اختیار ختم کرنا چاہتے تھے، جبکہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے ادویات ساز کمپنیوں کا اختیار واپس لینے کی سمری واپس لے لی تھی۔وزیراعظم عمران خان کے حکم پر ادویات ساز کمپنیوں کا اختیار واپس لینے کی سمری دوبارہ منگوائی گئی، جبکہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے کابینہ اجلاس میں ادویات ساز کمپنیوں کا اختیار واپس لینے کی سمری کی مخالفت کی تھی۔اس کے بعد وزیراعظم نے کابینہ میں ادویات ساز کمپنیوں کا اختیار واپس لینے کی سمری منظور کرلی تھی۔ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان ادویات اسکینڈل کے بعد ڈاکٹر ظفر مرزا کو پہلے ہی ہٹانا چاہتے تھے لیکن عالمگیر وبا کورونا وائرس کے پھیلنے کے باعث ایسا نہیں کیا گیا۔اسکینڈل کے حوالے سے موصول دستاویزات کے مطابق وفاقی کابینہ نے 9 اگست 2019 کو بھارت سے درآمدات پر پابندی لگائی، تاہم وفاقی کابینہ کے بجائے وزیراعظم آفس سے 25 اگست کو فیصلے میں ترمیم کروائی گئی۔دستاویز کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وزیرِ اعظم آفس منظوری دینے کا مجاز نہیں۔اس دستاویز میں بتایا گیا کہ مشیرِ تجارت عبدالرزاق داؤد اور معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملاقات کی جس کے بعد وزارتِ تجارت نے 24 اگست 2019 کو کابینہ ڈویژن کو فیصلے میں ترمیم کے لیے خط لکھا۔رولز آف بزنس کے مطابق کابینہ فیصلے میں ترمیم کے لیے 24 گھنٹوں میں رجوع کرنا لازم تھا۔دستاویز کے مطابق ڈاکٹر ظفر مرزا کی ڈی جی ٹریڈ پالسی محمد اشرف سے رابطے کی انکوائری مکمل کی گئی۔ڈاکٹر ظفر مرزا نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سوالات اٹھنے پر لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں