لکھ لیں جیسے ہی کسی کونے سے اشارہ ہوا سب سے پہلی بغاوت چودھری کریں گے، وزیراعظم کو قبل از وقت خبردار کر دیا گیا

لاہور (پی این آئی) چودھریوں پر کیس،نیب کی جاندی بہار کے مزے ثابت ہو گا۔ویسے تو اس میدان زار میں جنوں پبھنواوہی لال ہے لیکن کوئی تو ایسا ملے گا جس کا دامن چاک ضرور ہو لیکن اس کی جھولی میں کرپشن کے چھید نہ ہوں۔ چلیں خیر وٹہ سٹہ کی سیاست میں اب ارکان پارلیمنٹ عدلیہ کے حکم پر نیب کے پر

کاٹیں گے۔ یعنی چور تھانیدار کو سکھائے گا کہ اس نے کس دلپسند انداز میں تفتیش کرنی ہے۔خیر نیب نے بھی بہت ات چک لی تھی بس کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑے بارہ آنے۔ آپ کپتان کو لاکھ برا بھلا کہیں۔ ہمارا کون سا وہ پھوپی کا پتّر ہے۔ لیکن اس نے ایک کام کر دکھایا، سب کے عیب عیاں کر دیئے، کسی کو نہیں بخشا۔ پہلے ہم سنا کرتے تھے اس معاملے پر بڑے بڑے نام سامنے آ رہے ہیں اور اب وہ نام اپنی اصل شناختی کارڈ نمبر اور ڈومیسائل کے ساتھ سب کے سامنے ہیں۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ ہم ساری زندگی اینٹیں گارا اکھٹا کر کے ایک گھر نہیں بناپائے اور ہمارے غم میں گھلنے والے اربوں کھربوں یوں ڈکار جاتے ہیں جیسے اس سسٹم نے کارمینا بنائی ہی ان کے لئے ہے اسی لئے یہ کہتے ہیں ”آوے میں ٹبر کھا جاواں تے ڈکار وی نا ماراں“۔ یہ ٹھیک ہے کہ ق لیگ ہو یا ایم کیو ایم ہماری چڑیا دا وہ چنبہ ہوتی ہیں، وقت آنے پر انہوں نے پھر سے اڑ جانا ہوتا ہے۔ ایثار رانا نے لکھا کہ لیکن اس بار چودھریوں پر کھلنے والے کیس چاہے آگے جا کر کوآپرٹیو سکینڈل کی طرح منہ بھرنے ڈگ پڑیں لیکن کم از کم پارسائی کی پوشاک پر دوچار چھینٹے ضرور پڑ جائیں گے۔ لکھ لیں جیسے ہی کسی کونے سے اشارہ ہوا سب سے پہلی بغاوت چودھری کریں گے۔ اس لئے انہوں نے سنجے دل والے بوہے نہیں بند کئے کیونکہ کسی نہ کسی رات چناں تاریاں دے لوئے ضرور اشارہ کریں گے۔ سنتا سنگھ اپنی مرغی کے مرنے پر بھائیں بھائیں رو رہا تھا کہ بنتا نے کہا یار اتنا تو میں اپنے ابے کے مرنے پر نہیں رویا۔ سنتا نے آنسو آلود ناک پونچھتے ہوئے کہا تیرا ابا آنڈے دیندا سی۔ بھیا میرے جعلی بکرے، دنبہ سمجھ کر خریدنے والے پاکستانیو، یہ نظام جسے تمہارے منہ میں جمہوریت کے نام پرچوچی روٹی کہہ کر ڈالا جاتا ہے۔ مرغی دینے والا انڈہ ہے۔ ہم مر جائیں ہمارے پیارے مر جائیں۔ اس نظام کی ککڑی نہیں مرنی چاہئے کیونکہ جو آنڈے یہ دیتی ہے۔ اس سے ہی یہ سارے میاں، چودھری، خان پلتے ہیں۔ اس لئے میرے جیسے بھانڈنمادانشور مولا بھاگ لائی رکھے پکارتے ہیں کہ آنڈہ نہ سہی اس کی سفیدی کا چھلکا سہی ہم جیسوں کو پرباش کر دیتا ہے۔کمال کا آدمی ہے وہ جس نے کمزور بکرے کے اوپر دبنے کی کھال ایلفی سے فٹ کی۔ فٹ ہی نہیں کی دنبہ بیچ بھی دیا۔ دنبہ نہ ہوا پاکستانی الیکشن ہو گیا۔ پتہ ہی نہیں چلتا ہم تو دنبہ سمجھ کر خریدتے ہیں نیچے سے لیلا نکل آتا ہے۔ میری مقتدر حلقوں سے درخواست ہے کہ آپ اس

فسانہ عجائب کے نادر کردار کو اپنی تحویل میں لیں۔ کہاں ملے گا ایسا فنکار آپ اسے الیکشن کمیشن میں استعمال کریں، عدالتی نظام میں کریں وزارت اطلاعات میں کریں۔ یہ ایسا کمزور بکرے کو دنبہ بنا کر دکھائے گا کہ لے رب دا ناں،1947ءسے ایسے ہی ہنر مند قوم کو ٹکرے اور ہم ہربار دنبہ لیکر خوش ہو گئے۔سنتا سنگھ بیل کو چھت پر چڑھا رہا تھا کسی نے پوچھا،کہاں لے جا رہے ہو؟وہ بولا اسے ذبح کرنا ہے۔دوست نے کہا کہ تو چھت پر کیوں لے جا رہے ہو،وہ بولا پاگلا چھری چھت تے پڑی ہے۔اب ہمارے حکمرانوں کو کون سمجھائے۔بھائی صرف چھری چھت سے نہ اٹھانے کی آلکسی میں تم پوری قوم کو گھسیٹ کر چھت پر کیوں لے جا رہے ہو۔ذبح ہی کرنا ہے تو اتنی گنجائش نکالو کہ چھری نیچے لے آو¿۔بقرہ عید سر پر ہے سوچ رہا ہوں کہ جعلی خون اور اوجڑی کہاں سے ملے گی۔میں نے عید کی صبح وہ خون گھر کے باہر چھڑکنا ہے اور اوجڑی بھی پھینکنی ہے تاکہ لوگوں کو یقین ہو سکے کہ میں نے قربانی دی ہے۔احتیاطً میں نے ٹیپ ریکارڈ میں بکرے کی آواز ریکارڈ کر لی ہے جوسارا دن میرے گھر چلتی رہے گی۔بس یہ ہے کہ جب بجلی چلی جائے تو ہم سب باری باری بھیں بھیں کی آواز یں نکالتے رہیں تاکہ ‘کنٹینیوٹی’ رہے۔یہ جملے کتابوں میں بہت

فٹ لگتے ہیں کہ عیدالاضحٰی اناؤں کی قربانی کا نام ہے۔بھیا میرے یہ پاکستان ہے یہاں ہمارے شرفا کی انائیں کوہ ہمالیہ سے بھی کچھ آٹھ دس سینٹی میٹر بلند ہیں۔خیر مفتی منیب اس حد تک مفتی پوپلزئی سے متاثر ہیں کہ اس بار وہ خود فواد چودھری کے لئے مفتی پوپلزئی ثابت ہوئے وہ تو شکر ہے بادل ایک دن ایسے کوئی دو ہفتے اور رہتے تو ہم عید مڈ اگست میں مناتے۔اور اگر بادلوں،موسموں کی وجہ سے چاند پھر بھی نظر نہ آتا تو عید ملتوی بھی کی جاسکتی تھی۔رہا غلطی کا کفارہ تو وہ کس نے ادا کرنا ہے؟اس بیس کروڑ عوام نے جو سیاست،جمہوریت،وطنیت،مذہب کے نام پر مختلف مافیاز کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے۔اور بے بس رضیہ غنڈوں میں پھنسی اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کی تصویر بنی رہتی ہے۔ٹیچر نے کلاس سے پوچھا مرغی کی ٹانگیں لمبی کیوں ہوتیں ہیں؟اپنا ہونہار سنتا سنگھ بولا ٹیچر جی اگر ٹانگیں لمبی ہوتیں اوروہ آنڈے دیتیں تو آنڈہ ٹوٹ جاتا۔شکر ہے اس نظام کی ٹانگیں لمبی ہیں نا مضبوط ورنہ مختلف بھیسوں میں چھپے سارے مافیاز کے آنڈے ٹوٹ جاتے۔چلیں مفتی منیب الرحمن کی انا جیت گئی۔فواد چودھری کی سائنس ہار گئی۔1971ءکے آئین کے تناظر میں اس سے محفوظ بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں