اسلام آباد، لاہور (پی این آئی) وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو عہدے سے ہٹائے جانے کی افواہیں ہر کچھ عرصہ بعد گردش کرتی رہتی ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان اس کی تردید کرتے رہے ، علیم خان اور سبطین خان کی ملاقاتیں بھی زیرگردش رہیں اور اب اس بارے میں سینئر کالم نویس اور معروف شاعر منصور آفاق
نے بھی قلم اٹھایا ہے ۔روزنامہ جنگ میں انہوں نے لکھا کہ ” ہر طرف شور بپا کیا گیا کہ ’’بزدار گیا، بس ابھی گیا‘‘ عمران خان نے علیم خان کو بلا لیا ہے۔ راجہ بشارت سے میٹنگ کرلی ہے۔ سبطین خان کے ساتھ طویل ملاقات کی ہے۔سچ یہ ہے کہ سبطین خان کی اپنے حلقے کے ترقیاتی کاموں کے علاوہ عمران خان کے ساتھ کسی موضوع پربات نہیں ہوئی۔ پنجاب کابینہ کے حالیہ اجلاس میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت پر بھرپور اعتماد کی قرارداد منظور ہوئی، جس میں علیم خان اور راجہ بشارت نے بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا۔ یہ قرار داد جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کا منہ بند کرنے کےلئے پاس کی گئی۔ عثمان بزدارکو کمزور وزیر اعلیٰ سمجھنے والے کسی بھول میں ہیں۔وہ کہیں نہیں جارہے۔ پنجاب کا سیاسی ماحول ان کی گرفت میں ہے، اتحادی ان سے خوش ہیں، اپوزیشن کے ممبران اسمبلی ان سے ملاقات کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ پہلےوزیر اعلیٰ ہیں جو منظم ہیں اوررسک اسسمنٹ کو دیکھ کر کام کر رہے ہیں۔جہاں پچھلی 7 دہائیوں میں کوئی کام نہیں ہوا تھا ان علاقوں میں اُن کے کام اپنی افادیت کی وجہ سے ان کی حکومت کی پہچان بن رہے ہیں۔عمران خان نے محسوس کیا کہ کورونا کی تباہ کاریوں کے بعد اگر کوئی شعبہ معیشت کو بحال کر سکتا ہے تو وہ کنسٹرکشن سیکٹر ہے۔عثمان بزدار نے ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تعمیراتی شعبہ میں انقلابی اقدامات کا آغاز کیا۔ اس بات کا تخمینہ لگوایا کہ پانچ مرلے کے ایک گھر کی تعمیر سے کتنے لوگوں کو روزی مل سکتی ہے۔پتہ چلا کہ پانچ مرلے کا ایک گھر 50 سے 100 خاندانوں کیلئے امید کی کرن بنتا ہے۔ اب اندازہ لگائیں کہ لاکھوں لوگوں کا اپنا ذاتی مکان بنانے کا خواب ، اگرحقیقت بن جائے تو کتنے افراد کیلئے روزگار فراہم ہوگا۔ وزیر اعلی نے اس سلسلے میں ’’اپروولز رجیم پنجاب ‘‘کا اجرا کیا ہے۔ اس سسٹم سے جہاں کمرشل اور انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کے شعبے میں کاروبارکرنے والوں کو سہولتیں ملی ہیں وہاں عام شہریوں کیلئے گھروں کی تعمیر بھی آسان ہوئی ہے۔حکومت پنجاب نے صوبے کے 9 ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں قائم ای خدمت مراکز میں تعمیراتی شعبے کیلئے ون ونڈو سینٹرز قائم کردئیے ہیں۔ اب ان سینٹرز پر کاروباری حضرات یا عام آدمی نجی منصوبوں سے متعلقہ اجازت نامے اور این او سیز ایک ہی چھت کے نیچے حاصل کر سکتے ہیں۔ اب درخواست گزار کو فائلیں اٹھاکر دفتر دفتر نہیں پھرنا پڑے گا، واسا، انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی، ایل ڈی اے اور دیگر ڈویلپمنٹ ایجنسیوں کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔ متعلقہ اجازت ناموں کیلئے اب ایک ہی جگہ کا تعین کردیا گیا ہے”۔انہوں نے مزید لکھا کہ”تعمیراتی شعبے میں ہر قسم کے این او سی کیلئے مدت متعین کردی گئی ہے۔ افسران مقررہ مدت میں این او سیز اور اجازت ناموں کی فراہمی کے پابند ہونگے۔تاخیر کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اپروولز رجیم پنجاب کے تحت تعمیرات کیلئے نقشوں کی منظوری 30 کاروباری دنوں میں ہو گی۔تعمیر کی تکمیل کاسرٹیفکیٹ بھی 30 دنوں میں، جگہ کے استعمال میں تبدیلی کا اجازت نامہ 45 دنوں میں اور نجی رہائشی اسکیموں کیلئے این او سی 60 سے 75 دنوں میں حاصل کیا جا سکے گا۔ اگست میں اس کا دائرہ کار اضلاع تک پھیلادیا جائے گا۔ اب تک تقریباً 1400 درخواستیں موصول
ہوچکی ہیں جن میں سے تقریبا 500 پر اجازت نامے اور این او سیز جاری کئے جاچکے ہیں۔ اس کام کاکریڈٹ وزیر اعلیٰ عثمان بزدارکو نہ دینا زیادتی ہوگی۔اب ایک اور اچھے کام طرف آتے ہیں جسے مسلسل برا کہا جارہا ہے۔ وہ ہے ٹی وی لائسنس فیس میں اضافہ۔ یقیناً اس عمل سے پی ٹی وی کے مردہ گھوڑے کی شریانوں میں لہو دوڑ گیا ہے۔جہاں تک غریبوں پر بوجھ بڑھ جانے کی بات ہے تو وہ بالکل غلط ہے۔ غریب اس فیس سے مستثنی ہیں۔ ماہانہ بجلی کی کھپت کے 100 یونٹ سے کم صارفین نے یہ فیس ادا نہیں کرنی۔ مساجد اور اسکول بھی مستثنیٰ ہیں۔ برطانیہ میں ماہانہ ٹی وی فیس تیرہ پونڈ یعنی 26سو روپے ہے۔ پاکستان سے 26 گنا زیادہ اور کوئی بھی مستثنیٰ نہیں”۔اخبار کے مطابق “یورپ کے باقی ممالک میںیہ فیس اس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ فیس اس لئے لی جاتی ہے کہ سرکاری نشریاتی ادارے کاروباری ادارے نہیں ہوتے۔ ان کا کام اپنی تہذیب و ثقافت کا فروغ ہوتا ہے۔وہ ریاست کے بیانیہ کےعلمبردار ہوتے ہیں۔ افسوس کہ پاکستان میں ان اداروں سے سیاسی پروپیگنڈا کاکام لیا جاتارہا ہے۔ عمران خا ن کی حکومت آئی تھی تو اعلان کیا گیا تھا کہ پی ٹی وی کو بی بی سی کی طرح خود مختار ادارہ بنا یا جائے گامگر ابھی تک پی ٹی وی وزارت اطلاعات و نشریات اور
پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔ایک اور معاملے پر بھی تھوڑی سی بات کرلوں۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ نیب احتساب میں تا خیر کا ذمہ دار ہے۔ نیب نے اس کا تو کوئی جواب نہیں دیا مگر خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ رہا نہیں ہوئے ان کی ضمانت ہوئی ہے۔دونوں ملزمان ایک غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹی میں عوام کومالی نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں۔68 متاثرین کونہ تو پلاٹ فراہم کئے گئے ،نہ رقوم واپس کی گئیں۔ ہائوسنگ پروجیکٹ کوایل ڈی اے کی جانب سے غیرمنظور شدہ ڈکلیئر کئے جانے کے باوجود لوگوں سے سرمایہ اکھٹا کیا گیا۔ملزمان ،اپنےاکائونٹس میں جمع ہونے والی رقوم کی وصولی کی خاطر خواہ وضاحت پیش نہیں کر سکے۔ نیب نے ان کے جرائم کی ایک طویل فہرست جاری کی ہے مگر فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے۔ سو یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ خواجہ برادران مجرم ہیں ،ملزم انہیں ضرور کہا جاسکتا ہے”۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں