کراچی(پی این آئی)کے الیکٹرک نے ایک مرتبہ پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ شہر کے کسی بھی حصے میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں کی جارہی۔ بجلی چوری والے علاقوں میں نیشنل پاور پالیسی 2013کے تحت لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے جبکہ لوڈ مینجمنٹ بجلی کے شارٹ فال کے باعث کی جاتی ہے اور دونوں پر شیڈول
کے مطابق عمل کیا جاتا ہے جس کیلئے رجسٹرڈ صارفین کو بذریعہ ایس ایم ایس مطلع کیا جاتا ہے اور اس کی تفصیلات کے الیکٹرک کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ مختلف حصوں میں کی جانے والی لوڈ شیڈنگ اْن علاقوں میں بجلی چوری کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور اس کا تعین مجموعی ٹیکنکل اور تجارتی نقصانات (AT&C) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ بجلی چوری روکنے کے لیے کے الیکٹر ک کی کوششوں کی بدولت آج کراچی کا 75فیصد حصہ لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہے جبکہ باقی علاقوںمیں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بجلی چوری کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔حتیٰ کہ بہت زیادہ نقصانات والے علاقوں میں بھی ،جہاں نقصانات کی شرح 45فیصد سے زیادہ ہے، کے الیکٹرک نقصان اٹھانے کے باوجود 15سے 16گھنٹے بجلی فراہم کرتا ہے اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 7.5سے 8.5گھنٹے سے زیادہ نہیں ہے۔پاور یوٹیلیٹی وقتاً فوقتاً صورتحال کاجائزہ لیتی رہتی ہے اور اس دوران ہر علاقے کے نقصانات کو جانچ کر انہیں بالترتیب زیادہ یا کم نقصانات والے علاقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔بجلی چوری کی روک تھام کیلئے ،9,000پی ایم ٹیز کو ایریل بنڈلڈ کیبل پر منتقل کیا جاچکا ہے اور کنڈا ہٹانے کی مہم بھی باقاعدگی سے چلائی جاتی ہے۔کے الیکٹرک کی جانب سے صرف اِس سال،ملیر، لانڈھی، کورنگی، اورنگی، بلدیہ اور لیاری کے علاقوں سے 200,000 کلوگرام سے زیادہ غیرقانونی کنڈے بجلی کے انفرااسٹرکچر پر سے ہٹائے گئے ہیں۔الطاف ٹاؤن اور گزدرآباد جیسے علاقوں میں بجلی چوری جیسی سماجی برائی سے نمٹنے کے لیے ان کوششوں کو کمیونٹی انگیجمنٹ کے ذریعے کامیاب بنایا گیا ہے اور ان علاقوں کو زیادہ نقصان والے علاقوں سے کم نقصان والے علاقوں میں تبدیل کیا گیا ہے جس سے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن (T&D)پر ہونے والے نقصانات 36 فیصد (2009) سے کم ہو کر 19.7 فیصد (2020) پرآ گئے ہیں۔بجلی چوری والے علاقوں میں معمول کے مطابق لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس، مستثنیٰ علاقوں میں ناگزیرصورتحال کے باعث اس وقت لوڈمینجمنٹ کی ضرورت پیش آتی ہے جب بجلی کی طلب اور رسد کے درمیان فرق مختصر دورانیے کیلئے بڑھ جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں