اسلام آباد (پی این آئی )بہرحال وہ سلیکٹر کی نظر میں آہی گیا تھا۔12اکتوبر 1999کو جنرل (ر) پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو عمران نے پارٹی اجلاس بلایا اور طے کیا کہ اگر مشرف نواز اور بےنظیر بھٹو کی حکومتوں کی کرپشن کیخلاف کارروائی کرتا ہے تو ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہئے۔ مشرف سے وہ 2002میں اس وقت مایوس ہو گیا جب جنرل نے
چوہدریوں پرہاتھ رکھ دیا اور عمران کو سمجھایا کہ ’’شریفوں‘‘ کا مقابلہ یہی کر سکتے ہیں۔سینئر کالم نگار مظہر عباس اپنے حالیہ کالم میں لکھتے ہیں کہ بہرحال مشرف کا ساتھ چھوڑا تو عمران کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ وہ مذہبی ووٹ بھی توڑ رہا تھا اور پی پی پی کے روشن خیال بھی اس طرف مائل نظر آنے لگے۔ وکیلوں کی تحریک میں وہ بڑی آواز بن کر ابھرا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران مشرف مخالفت میں نواز شریف اور قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ تھا۔2007میں بےنظیر بھٹو کی شہادت نے ملک کا سیاسی منظرنامہ ہی بدل دیا۔ جنوری 2008کے الیکشن ایک ماہ کے لیے ملتوی ہوئے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پہلے ہی مشرف کے ماتحت الیکشن کا بائیکاٹ کر چکی تھیں مگر مسلم لیگ(ن) نے اس کے برخلاف حصہ لیا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کا یارانہ عمران کے لیے مقبولیت کا پروانہ بن گیا۔ وہ اب سب سے بڑا اپوزیشن لیڈر بن گیا اور تحریک انصاف تیسری قوت بن کر ابھری۔سلیکٹرز کی نظر میں تو و ہ پہلے ہی آگیا تھا مگر پھر بھی پنجاب قابو نہیں آرہا تھا لہٰذا 2014کےدھرنے کے بعد پانامہ لیک کیا آئی کہ عمران کی تو لاٹری نکل آئی۔ میاں صاحب کی نااہلی نے رہی کسر پوری کردی۔ پھر بھی ٹیم بنانے میں سلیکٹرز کو دشواری پیش آئی مگر یہ کام تو اس ملک میں ہمیشہ ہوتا ہے اس سے عمران اور تحریک انصاف کی زمان پارک سے وزیراعظم ہائوس تک کی جدوجہد کا کریڈٹ واپس نہیں لیا جا سکتا۔ آئندہ کالم دوسال کی کارکردگی پر۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں