لاہور (پی این آئی )نجی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیاہے کہ کورونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماری پاکستان میں داخل ہو گئی ہے ، جس کا نام ” کاوا ساکی “ ہے اور اس نے بچوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیاہے ، پاکستان کے چار بڑے شہروں میں اس مرض میں مبتلا بچے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔نجی ٹی وی
کا اپنی رپورٹ میں کہناتھا کہ پانچ سال سے 19 سال کے بچوں میں یہ بیماری آتی ہے یہ” پوسٹ کووڈ ڈیزیز “ہے، وہ بچے جو کورونا سے صحت یاب ہو جاتے ہیں ان کو دو سے چھ ہفتوں کے دوران علاما ت ظاہر ہوتی ہیں جس میں جسم پر ریشز، آنکھوں میں سرخی، بخار اور گلینڈز پھول جاتے ہیں۔ او راس کا تشخیصی ٹیسٹ اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اینٹی باڈیز کے ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بچہ کووڈ سے ریکور کرگیا ہے ۔اس بیماری سے متعلق نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد ملک کا کہناتھا کہ یہ ایک بیماری ہے، ایک کمپلیکشنز ہے ، اس میں مبتلا بچے کی زبان موٹی ہو جاتی ہے دس دن کے اندر ، یہ بہت ہی کم پائی جانے والی بیماری ہے ، اگر کسی بچے کو ہوجائے تو اس کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور انتقال بھی ہو سکتا ہے ۔اس پر چائلڈ سپشلسٹ ڈاکٹر ہارون حامد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس کے کیسز کم ہیں، لاک ڈاون کی وجہ سے بچوں کا ایکسپوژر کم ہوا ہے۔ چلڈرن ہسپتال لاہور میں بھی کچھ مریض داخل ہوئے ہیں اور میو ہسپتال میں بھی ایک دو بچے داخل ہوئے ہیں۔ان کا کہناتھا کہ کورونا وائرس کے بعد یہ بیماری ضرور ہوتی ہے لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر دفعہ بچوں کے اندر کورونا وائرس انفیکشن کی علامات نہیں آتیں، بہت دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ بچوں کو کورونا وائرس کی علامات نہیں آتیں لیکن اس کی فیملی میں کچھ لوگوں کو ہوتا ہے اور پھر اس کے دو سے تین ہفتے کے بعد اس کو کاواساکی ڈیزیز سے ملتی جلتی علامات آنا شروع ہو جاتی ہیں یا” ملٹی سسٹمز انفلیمیٹری سنڈروم“ کی آنی شروع ہوجاتی ہیں۔یہ دو مختلف قسم کی اس کی مینی فیکٹیشن ہیں۔ کاواساکی ڈیزیز کے اندر بخار کے علاوہ بچوں کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، زبان کی سرخی، ہاتھوں سے سکن اترنے لگ جاتی ہے اور اس کے ساتھ کبھی کبھار جوڑوں کا درد بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے کہا گیا کہ یہ بہت ریئر ہے 8فیصد سے بھی کم بچوں میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ شرح موت ہونے کے چانس بہت زیادہ ہیں، اس لیے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے اندر خاص جلد پر دانے نکل آتے ہیں اور وہ دانے بعض دفع خسرے کے دانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر اس طرح کے دانے ہوں اور فیملی میں کورونا وائرس کی علامات ہوں تو ہمیں الرٹ رہنا چاہیے اور چائلڈ سپیشلسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں