میرے بیانات دیکھ لیں کہیں کنفیوژن نہیں، وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو بڑا چیلنج کر دیا

اسلام آباد(پی این آئی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ چیلنج کرتا ہوں، 13مارچ سے میرے بیانات میں تضاددکھا دیں، دنیا میں ہماری واحد حکومت تھی جس میں کوئی کنفیوژن نہیں تھی، میرے بیانات دیکھ کہیں کنفیوژن نہیں ہے، آج بھی وہی کہتا ہوں لاک ڈاؤن سے نقصان ہوگا، غریب طبقات کا کیا بنے گا؟ انہوں نے

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کی صورتحال بہت مختلف تھی۔سماجی فاصلے کی مثال دی جاتی ہے، وہاں ویسے ہی سماجی فاصلہ ہے، لیکن پاکستان میں کچی آبادیاں، چھابڑی والے ہیں، ہم باقی ممالک سے مختلف ہیں۔ ہم نے ایک طرف لوگوں کو کورونا سے بچانا ہے اور دوسری طرف غربت سے بچانا ہے، جس طرح کا لاک ڈاؤن مودی نے کیا اس طرح کے لاک ڈاؤن کیلئے ہمارے اوپربڑا پریشر تھا۔ہر ملک نے اپنی اسٹریٹجی بنائی ہوئی تھی۔کسی ملک کو اندازہ نہیں تھا، میں کہنا چاہتا ہوں بار بار کہا جاتاہے کہ کنفیوژن تھی، لیکن اگر کسی حکومت میں کنفیوژن نہیں تھی، وہ ہماری حکومت تھی۔میں 13مارچ کو جو کہا وہی آج ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ اگر سنگاپور کی آبادی ہے، 50فی کس آمدنی ہے، تو کرفیو لگا دیں، لیکن میں یہ بھی کہا ہمارے ملک کی جو صورتحال ہے، اس میں غریب طبقات پر کیا بنے گا، میرے بیانات دیکھ لیں کہیں تضاد نہیں، کہیں کنفیوژن نہیں ہے۔میں اپنی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔پہلے ہمارے کوئی ڈیٹاتک نہیں تھا۔ ہندوستان میں 34فیصد لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، اتنا سخت لاک ڈاؤن لگایا ہے، ویسا ہی لاک ڈاؤن ہمیں کہا جا رہا تھا کہ لگائیں۔ آج ہندوستان اور ہمارا ریٹ ریٹ دیکھیں۔ آج ساری دنیا کہہ رہی ہے، کہ کورونا کا نقصان زیادہ ہے، نیویارک کو دیکھ لیں، وہاں 23ریاستوں میں کورونا بڑھ رہا ہے لیکن لاک ڈاؤن بھی کھول رہے ہیں۔دنیا کا امیرترین ملک بھی اپنی معیشت کو بند نہیں کررہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا ہم پر بڑا کرم ہے، ہم ابھی تک اس میں نکل گئے ہیں، اگلا مرحلہ مشکل مرحلہ ہے، عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ایس اوپیز پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے، لوگوں کو روزگار دینا بہت ضروری ہے، اسی لیے فیکٹریاں کھولی گئیں ، کاربار کھولے گئے۔ ہمیں اپنے طور پر لوگوں کو بتانا ہوگا کہ بلڈ پریشر، ذیابیطس کے مریضوں کو اور بزرگوں کو کیسے اس بیماری سے بچانا ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا سے جن چارہزار اموات ہوچکی ہیں، ان لوگوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ اگر ہم نے اگلے مرحلے میں احتیاط کی تو ہمارے پاس اتنی سہولتیں ہیں کہ ہم دباؤ برداشت کرلیں گے، لیکن اگر بے احتیاطی کی تو پھر بڑا مشکل ہوجائے گا۔اگر ہم نے ایک مہینہ احتیاط سے گزار لیا تو ہم برے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم کورونا کے پیچھے چھپ رہے ہیں، میں بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی معیشت کو12ٹریلین ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔انگلینڈ کی 20فیصد معیشت نیچے چلی گئی ہے۔جتنی دیر لاک ڈاؤن کریں گے، معیشت کو بند رکھیں گے تو معیشت نیچے جائے گی، آج کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ کتنی دیر معیشت کی بحالی کو لگے گی۔ ہمیں سوئٹزرلینڈ کی معیشت نہیں ملی تھی، ہمارے پاس 20ارب ڈالر کا خسارہ تھا۔ دنیا میں معیشت کو دیکھا جاتا ہے، ڈالر باہر سے آرہے ہیں یا باہر جارہے ہیں۔ ہماری امپورٹ20 اور ایکسپورٹ60 تھی، جس میں بڑا تضاد تھا۔جب ہمیں ملا تو روپیہ 104روپے تھا، جب ہماری باری آئی تو روپیہ گرگیا، جس سے مہنگائی ہوئی۔ پھر ہم نے اقدامات سے روپے کو مستحکم کیا۔ڈالر مہنگا ہونے سے تیل مہنگا ہوا۔2013ء میں 16ہزار ارب کا قرضہ تھا۔ جب ہماری باری آئی تو 30 ہزار ارب تک پہنچ گئی، پہلے سال جو ٹیکس اکٹھا کیا اس میں آدھا

ماضی کے قرضوں کی قسطیں دیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر 20 سے کم ہوکر 10ارب رہ گئے۔پھر ہم دنیا کے پاس اور دوست ممالک کے پاس پیسے اکٹھے کرنے کیلئے گئے۔میں 30 سالوں سے پیسے اکٹھے کررہا ہوں، مجھے کبھی شرم نہیں آئی جب میں شوکت خانم، یونیورسٹیز، سیلاب، زلزلہ زدگان اور اپنے لوگوں کیلئے پاکستانیوں سے پیسے اکٹھے کرتا ہوں۔ لیکن مجھے شرم آئی جب دوسرے ملکوں سے اپنے لوگوں کیلئے پیسے مانگے۔آپ کا جتنا مرضی وہ خیرخواہ ہو، دوست ہو، لیکن جب ہاتھ پھیلاتے ہیں تو اس کی آنکھوں میں ایک لک آتی ہے، یہ میرے لیے نہیں ملک کیلئے شرم کی بات تھی، ہم پہلے تین مہینے تو کبھی ایک کبھی دوسرے ملک کے پاس پیسے مانگنے جا رہے تھے۔یہ سارا ہمارا لیڈرشپ کی وجہ سے تھا۔ ملک کا وزیراعظم ایک باپ کی طرح ہوتا ہے، لیکن اگر بچے بھوکے ہوں، علاج نہ کروا سکوں ، تو کیا میں بادشا ہ کی طرح رہوں اور میرے بچے بھوکے ہوں۔ انہوں نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے بتایا کہ سعودی عرب سے پاکستان کے زبردست

تعلقات ہیں۔ ایران ہمارا ہمسایہ ہے۔کچھ لوگ سعودی عرب اور ایران میں تنازع چاہتے ہیں۔ ایران اور سعودیہ نے ہم سے کہا دونوں کے تعلقات میں بہتر ی کیلئے پاکستان کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایک واقعہ ہواامریکن نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں آکر شہید کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا اتحادی امریکا پاکستان میں آخر اسامہ کو مارتا بھی ہے اور ہم پرتنقید بھی کرتا ہے، دوسری شرمندگی پاکستان میں ڈرون حملے تھے، یہ پاکستان کی تاریخ میں شرمساری کے 2 واقعات ہوئے، لیکن آج ہم کسی کی جنگ نہیں لڑ رہے۔اب ہم امن میں شرکت کریں گے جنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن مذاکرات میں پاکستان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔آج ڈونلڈٹرمپ پاکستان سے درخواست کرتا ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے مدد کی جائے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر پاکستان کو ذلت اٹھانی پڑی۔ افغانستان میں امریکا کامیاب نہیں ہواتو ذمہ داری بھی پاکستان پر ڈالی گئی۔ایڈمرل ملن نے کہا تھا کہ پاکستان کی اجازت سے ڈرون حملے کر رہے ہیں۔ایڈمرل ملن نے کہا تھا حکومت پاکستان اپنے لوگوں سے جھوٹ کیوں بولتی ہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں