اسلام آباد(پی این آئی)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ، آج ہی سنایا جائے گا، صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست کی سپریم کورٹ میں آج پھر سماعت ہوئی، دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، جو آج شام سنایا جائے گا۔فیڈرل بورڈ آف
ریونیو (ایف بی آر) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ سر بمہر لفافے میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرا دیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول بھی جمع کرا دیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے بھی دستاویز عدالتِ عظمیٰ میں پیش کیں اور جوابی دلائل کا آغاز کر دیا۔منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے۔انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی۔منیر اے ملک کا کہنا ہے کہ آج ساڑھے 10 بجے تک دلائل مکمل کر لوں گا، سمجھ نہیں آ رہی حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا؟ فروغ نسیم نے کہا تھا کہ ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے۔انہوں نے کہا کہ برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا گیا، جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہو گئے ہیں۔منیر اے ملک کا کہنا ہے کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آ گئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں، عدالتی کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کا مؤقف تھا کہ ریفرنس سے پہلےجج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں، کل کی سماعت کے بعد آپ کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔منیر اے ملک نے سوال کیا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں یا ان کا لیا گیا حلف؟منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت درخواست کو انفردی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دیئے۔حامد خان نے دورانِ دلائل سورہ النساء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، جو آج شام سنایا جائے گا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں