کراچی(پی این آئی) معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا ہے کہ پاکستانی معاشی پالسیزیز واشنگٹن میں بنائی جارہی ہیں اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بڑے اداروں میں اپنے لوگ بٹھا دیے ہیں جس کی وجہ سے بجٹ 21-2020 میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ایک
رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کے آئن لائن سیمینار (ویبی نار) میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغرب کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حکومت نے سی پیک کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت زیادہ تر غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرتی ہے اس لیے اقتصادی منتظمین آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کو سی پیک کا ذکر نہ کر کے خوش کرنا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ریمارکس دیے کہ ’بجٹ 21-2020 ایک روایتی بجٹ ہے جس میں تبدیل ہوتی معاشی ترجیحات پر توجہ نہیں دی گئی‘۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی وبا کے بعد پیدا ہونے والے معاشی بحران کے سبب پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں بہت سی صنعتیں بند ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں۔ماضی میں بہت سی حکومتوں میں مشیر اقتصادیات رہنے والے ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مزید کہا کہ متوسط طبقے کو بجٹ 21-2020 میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’درحقیقت بجٹ 21-2020 عام آدمی کی جیب سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس ریونیو حاصل کرنے کی کوشش ہے کیوں کہ حکومت نے بجٹ آئی ایم ایف کی ہدایات پر بنایا‘۔ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق چونکہ بجٹ میں بجلی اور گیس کی قیمتیں نہیں بڑھائی گئیں اس لیے وفاقی حکومت ستمبر، اکتوبر میں یوٹیلیٹی سہولتوں کی قیمت میں اضافہ کردے گی۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس بحران کے باوجود حکومت نے اپنا غیر ترقیاتی بجٹ اور سرکاری دفاتر چلانے کے لیے مختص بجٹ کم نہیں کیا۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’حکومت نے معیشت کی تمام تر خامیوں کی ذمہ داری کووِڈ 19 پر عائد کردی ہے لیکن وبا سے پہلے ہی معیشت وینٹی لیٹر پر تھی‘۔ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستانی معیشت غیر ملکی اور مقامی قرضوں پر چل رہی ہے اور قرضے کم کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیاان کا مزید کہنا تھا کہ ’بجٹ 21-2020 میں تمام معاشی اہداف پر منظم طریقوں سے متعین کیے گئے کیوں کہ حکومت موجودہ مالی سال 20-2019 کے دوان بڑے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی‘۔ڈاکٹر قیصر بنگالی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں مافیاز معیشت اور صنعتین چلا رہی ہیں مثلاً! شوگر مافیا برسوں سے سبسڈی حاصل کررہی ہے جسے قانونی بنا دیا گیا ہے، فلور ملز گندم رعایتی قیمتوں پر حاصل کرتی ہیں لیکن زائد قیمتوں پر آٹا فروخت کرتی ہیں جبکہ کاغذ کی صنعتوں کی بھی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے مقامی اشاعتی صنعت متاثر ہورہی ہے‘۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں