پاکستان کے 884 علاقوں میں مکمل لاک ڈاؤن، جہاں ایس او پیز پر عمل نہیں ہو گا، انتظامیہ کارروائی کرے گی، اسد عمر کی وارننگ

اسلام آباد(پی این آئی)پاکستان کے 884 علاقوں میں مکمل لاک ڈاؤن، جہاں ایس او پیز پر عمل نہیں ہو گا، انتظامیہ کارروائی کرے گی، اسد عمر کی وارننگ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و سربراہ این سی اوسی اسد عمر نے کہا ہے پاکستان میں 884 علاقوں میں مکمل لاک ڈاؤن ہے ، جہاں پر ایس اوپیز پر عمل نہیں ہوگا، انتظامیہ

کارروائی کرے گی، پاکستان میں کورونا کا پھیلاؤ زیادہ نہیں اور وبا بھی زیادہ مہلک نہیں لیکن ایس اوپیز پر عمل کرکے پھیلاؤ کو کم کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔ انہوں نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ قومی پالیسی میں تمام چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے ، لیکن ہمارے فیصلوں سے اگر کسی ایک شخص کی بھی زندگی خطرے میں پڑے گی تو یہ افسوسناک ہوگا اور ناقابل معافی ہے ۔ پاکستان میں یہ بیماری اتنی مہلک نہیں جتنا یورپ اور دیگر ممالک میں رہی، ہماری بنیادی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور ہماری حکمت عملی تھی کہ کورونا وبا کے پھیلاؤ میں کمی کرنی ہے ۔ اتنی کمی کرنی ہے کہ ہمارا صحت کا نظام مفلوج نہ ہوجائے ۔ وبا کے پھیلاؤ کو روکنا ہماری اولین ترجیح ہے ۔ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے دو حصوں میں ایک یہ ہے کہ کورونا سے بچنے کیلئے ڈاکٹرز کی ہدایت پر عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانا ہوگی ۔ احتیاطی تدابیر نہ اپنانے والے اپنی اور دوسروں کی زندگی اور کاروبار خطرے میں ڈال رہے ہیں۔حکومت نے بار بار خبردار کیا، اب اگر ایس او پیز پر عمل نہ کیا گیا تو انتظامیہ کارروائی کرے گی۔حکومت چاہتی ہے آپ آزادی سے زندگی گزاریں۔ چاہتے ہیں ہر کسی کی زندگی کا پہیہ چلتا رہے ۔ پاکستان میں کورونا سے 1935 لوگ انتقال کر گئے ، ہر شخص قیمتی تھا۔ کورونا سے ہر 10لاکھ میں سے 9افراد کا انتقال ہوا ہے ۔ پاکستان میں کورونا کا پھیلاؤ زیادہ نہیں ۔ہم ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں وبا زیادہ مہلک نہیں لیکن ہم سب نے ملکر کورونا کے پھیلاؤ کو کم کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔ اسوقت پاکستان میں 884 علاقوں میں لاک ڈاؤن ہے جبکہ2لاکھ سے زیادہ آبادی متاثر ہے ۔ دو لاکھ لوگوں کی مشکل ایک طرف جبکہ 20کروڑ عوام کی زندگی کی حفاظت کرنا زیادہ مقدم ہے ۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بیماری پھیلی ہے ، جس کے پیش نظر ٹیسٹنگ کے نظام کو بہتر کیا۔جب وائرس آیا اس وقت پاکستان میں 8لیبارٹریاں تھیں اور 472ٹیسٹ کیے گئے تھے ، آج ایک سو سے زیادہ لیبارٹریاں ہیں اور 22سے 23ہزار ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں