اسلام آباد(پی این آئی)کورونا بحران کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے، سینیٹ کے وقفہ سوالات میں وزارت خزانہ کا سچ۔حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیاتھا ،سراج الحقوزارت خزانہ نے سینٹ اجلاس میں کورونا کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد کے بیروزگار ہونے کے
خدشے کا اظہار کردیا۔آج بروزجمعہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان بالا کا بجٹ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بل پیش کیا گیا جو چیئرمین سینٹ نے متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔اس کے ساتھ ہی اجلاس میں ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے عامانتخابات 2018 کی جائزہ رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ سینٹ اجلاس کے دوران وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کورونا وائرس کے سنگین معاشی اثرات کی تصویر پیش کی گئی۔ وزارت خزانہ کے مطابق کورونا بحران کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں جن میں سے صنعتی شعبے کے 10 لاکھ اور خدمات کے شعبے کے 20 لاکھ افرادشامل ہیں۔ جواب میں تخمینہ لگایا گیا کہ کورونا بحران کے باعث غربت کی شرح 24.3 فیصد سے بڑھ کر 33.5 فیصد ہو جائے گی جبکہ مالی خسارہ 7.5 فیصد سے بڑھ کر 9.4 فیصد ہو جائے گا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کے مطابق بیرون ملک کام کرنے والے مزدوروں کی ترسیلات زر میں 2 ارب ڈالرز کی کمی ہو گی۔ اپریل سے جون تک فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) ریونیو میں 700 سے 900 ارب روپے تک کمی ہوگی جبکہ ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 4800 ارب روپے تھا جو 3905 ارب روپے تک گر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کی برآمدات کم ہو کر 21 سے 22 ارب ڈالرز ہوجائیں گی جبکہ کورونا بحران کے باعث بجٹ خسارہ 9.4 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ اجلاس کے دوران سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ 19 ہزار ایکڑ پر قائم سٹیل ملز سے اس سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں،4 روز پہلے خبر آئی کہ حکومت نے 9 ہزار ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تو 9 ہزار ملازمین فارغ کرنے کی کیا وجہ بنتی ہے۔ حکومت سٹیل ملز کے ریٹائر ملازمین کو بقایا جات کیوں نہیں دیتی ،تجویز ہے کہ سٹیل ملز ایک بہت بڑا ادارہ ہے جو تباہی اور بربادی سے دوچار ہے اس لئے اس حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کی جائے۔ سراج الحق نے کہا حکومت اس ادارے کا جو قرضہ دیتی ہے اس پر سود بھی لیتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اس ادارے کو چلانا اور آگے بڑھانا نہیں چاہتی ، یہی وجہ ہے کہ ملازمین بھی پریشان ہیں، ریٹائرڈ افراد بھی پریشان ہیں اور مزید افراد کو نکالا جارہا ہے اور اب تک اس کی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ان کے بیان کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا پاکستان سٹیل ملز نے 1985 سے اپنی پیداوار کا آغاز کیا اور 09-2008 میں یہ منافع سے خسارے میں چلی گئی۔ سینٹ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا 2015 میں سٹیل ملز کو بند کر دیا گیا اس کے بعد سے وفاقی حکومت ساڑھے پانچ سال سے ملازمین کو 35 ارب کی تنخواہیں دے چکی ہیں اور 20 ارب روپے کے ریٹرن ڈیوز جمع کئے جاچکے ہیں۔ حماد اظہر نے کہا 2008 سے اب تک 90 ارب روپے کے بیل آئوٹس دیئے جاچکے ہیں اور 2015 سے اب تک 35 کروڑ روپے ماہانہ تنخواہیں صفر پیداوار کے دوران دی گئیں۔سٹیل ملز کا قرضہ 211 ارب کا قرضہ ہے جب ہماری حکومت آئی تو 176 ارب روپے کا خسارہ تھا، ماضی کی دونوں حکومتیں نہ اس میں بہتری لاسکی اور نہ اس کی نجکاری کرسکی۔ وفاقی وزیر نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ سٹیل ملز کو نجی پارٹنرشپ کے ساتھ چلائیں اور سٹیل ملز کی قرض ری سٹرکچر نگ کے بعد نجکاری کی جانب جائیں گے سٹیل ملز کے ملازمین کو اوسط 23 لاکھ روپے دیے جائیں گے ، اور بعض کو تو 70 لاکھ روپے ملیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اب فارغ بیٹھنے کے بجائے پیداواری شعبے میں جائیں ایسا نہیں ہوسکتا کہ نوکریاں دینی ہیں تو سرکاری محکموں اور اداروں میں بھرتیاں کی جائیں۔سرکاری انٹرپرائزز کا خسارہ ہمارے سالانہ دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ چکا ہے ۔ بعدازاں چیئرمین سینٹ نے ایوان بالا کا اجلاس 8 جون بروز پیر کی سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں