اسلام آباد(پی این آئی)کراچی میں طیارہ تباہی کی رپورٹ 22 جون تک عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ، تحقیقات غیر جانبدار، شفاف ہوں گی، وزیر ہوا بازی غلام سرور نے اعلان کیا ہے کہ طیارہ حادثہ کی رپورٹ 22 جون کو عوام کے سامنے رکھ دی جائے گی۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور
خان کا کہنا تھا کہ کراچی طیارہ حادثے میں 97 افراد نے جام شہادت نوش کیا اور 2 لوگ معجزاتی طور پر محفوظ رہے، 51 میتوں کو ڈی این اے کے بعد لواحقین کے حوالے کردیا گیا، حادثےمیں جاں بحق افراد کی ورثاءکو10-10لاکھ دےدیئے، کوشش ہے کہ جلد از جلد میتیں لواحقین کے حوالے کی جائیں، جن املاک کو نقصان پہنچا ان کی بھی مدد کی جائے گی۔وزیر ہوابازی نے کہا کہ حکومت نے کابینہ کی منظوری کے بعد تحقیقاتی بورڈ تشکیل دیا، جس کی سربراہی پاک فضائیہ کے سینئر افسران کررہے ہیں، بورڈ خود مختار ہے اور کسی کو بھی شامل کرسکتا ہے، حادثے کا شکار طیارہ فرانس کی کمپنی نے بنایا تھا اس لئے ایئر بس کمپنی کی ٹیم بھی تحقیقات میں مصروف ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت ہر معاملےکو سیاسی بنانا چاہتی ہے، پاکستان بننے کے بعد 12 طیارہ حادثات ہوئے اور بدقسمتی سے ان میں سے 10 پی آئی اے کے جہاز تباہ ہوئے، کیا جب پیپلزپارٹی حکومت میں حادثہ ہوا تھا تو ذمہ داروں کو سزا ہوئی تھی؟ پوری قوم جاننا چاہتی ہے کہ حادثہ کیوں پیش آیا؟ طیارے حادثے کی رپورٹس بروقت نہیں آتی، تحقیقاتی رپورٹ آنے تک اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔وزیرہوابازی نے کہا کہ کیا جہاز کسی کے کہنے پر رن وے پر لینڈ ہوا؟ جہاز نے 3 بارلینڈنگ کی اور دوبارہ فلائی کیوں کیا؟ اس کی انکوائری ہورہی ہے، پائلٹ نے کوئی اعلان نہیں کیا کہ لینڈنگ گیئرز نہیں کھل رہے، جب لینڈنگ گیئر نہیں کھلتے تو پھر پائلٹ کریش لینڈنگ کے لئے اے ٹی سی کو اطلاع دیتا ہے، لیکن پائلٹ نے کریش لینڈنگ کے لئے ٹاور کو اطلاع نہیں دی اور کہا کہ میں مطمئن ہوں، وائس اور ڈیٹا دونوں ریکارڈ نگ پر ہیں، ڈی کوڈنگ کے بعد حقائق سامنے آجائیں گے، اگر جہاز میں کوئی فنی خرابی تھی تو انکوائری میں سب کچھ سامنے آئے گا۔غلام سرور کا کہنا تھا کہ طیارہ حادثے کی تحقیقات شفاف اور غیر جانبدار ہوں گی، حادثے میں کسی سے ذیادتی ہوگی نہ کسی ریلیف ملے گا، کم سے کم وقت میں صاف اور شفاف تحقیقات ہماری اولین ترجیح ہے، بائیس جون کو ابتدائی رپورٹ پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے رکھ دی جائے گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں