اسلام آباد (پی این آئی) اگر چینی برآمد کرنے کی اجازت نہ دی گئی تو۔۔۔۔شوگر ملز مالکان کی جانب سے وفاقی وزیر اسد عمر کو دی جانیوالی دھمکی کا انکشاف۔ حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظر عام پر لے آئی ہے جس کے
تحت جہانگیر ترین، مونس الٰہی، شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ، اومنی گروپ اور خسرو بختیار کے بھائی عمرشہریار کی چینی ملز نے پیسے بنائے۔اب وزیراعظم کو جمع کرائے گئے اس کمیشن کی رپورٹ کی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں اور انکشاف ہوا ہے کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کمیشن کو بتایا کہ شوگر ملز مالکان نے انہیں دھمکی دی تھی کہ اگر چینی برآمد کرنے کی اجازت نہ دی گئی تو کرشنگ سیزن شروع نہیں کریں گے۔مقامی اخبار کے مطابق وفاقی وزیر اسد عمر کمیشن میں پیش ہوئے اور بتایا کہ شوگر ملز مالکان نے چینی کی برآمد کی اجازت نہ دینے پر دھکمی دی،شوگر ملز نے دھمکی دی کہ اجازت نہ دینے پر کرشنگ سیزن شروع نہیں کریں گے۔کمیشن کے مطابق اسد عمر نے چینی برآمد کرنے کے فیصلے کو درست بھی قرار دیا اور کہا کہ اس وقت ملک میں چینی کا وافر ذخیرہ موجود تھا، چینی کی برآمد کے وقت ملک کو فارن ایکسچینج کی اشد ضرورت تھی، چینی کی برآمد کے فیصلے کے وقت کرشنگ سیزن شروع ہونے والا تھا، برآمد کے فیصلے کے وقت چینی کی قلت کا خدشہ نہیں تھا۔کمیشن رپورٹ کے مطابق اسد عمر نے کمیشن کو بتایا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کو برآمد کے باعث قلت سے منسلک نہ کیا جائے،چینی کے ذخیرے کے اعدادوشمار صوبےدیتے ہیں، مستند نہ ہونے کا شبہ نہیں،18ویں ترمیم کے بعد سبسڈی کا معاملہ صوبوں کے پاس ہے،چینی کی ایکسپورٹ پر سبسڈی کا مینڈیٹ وفاقی حکومت کا نہیں، چینی کی قیمتوں میں اضافہ کارٹیلائزیشن سے ہوا۔کمیشن رپورٹ کے مطابق کمیشن نے سبسڈی کو صوبائی معاملہ قرار دینے کے اسد عمر کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا کہ وزیراعظم عمران خان کے میشر تجارت مشیر عبد الرزاق داو¿د بھی چینی کمیشن میں پیش ہوئے۔رزاق داو¿د نے کمیشن کو بتایا کہ ملک میں چینی کا ذخیرہ موجود تھا، فارن ایکسچینج کی ضرورت تھی، چین نے درآمدی فہرست میں چینی کو بھی شامل کیا تھا، چینی برآمد کی ایک وجہ چین کو درآمدی فہرست میں شامل کرنا بھی تھا،ملک میں سال بھر کسی موقع پر بھی چینی کی قلت نہیں رہی۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق رزاق دائود نے کمیشن کو مزید بتایا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کو برآمد اور قلت سے جوڑنے کا جواز نہیں بنتا،شوگر ایڈوائزی بورڈ اور بین الوزارتی کمیٹی کے شرکاءایک ہی ہیں، شوگر ایڈوائزی بورڈ چینی کے معاملے پر بحث کا فورم ہے۔چینی کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود برآمد جاری رکھنے کے رزاق دائود کے جواب پر بھی کمیشن نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔کمیشن کا کہنا ہے کہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ چینی برآمد کی اجازت کے بعد ہوا، کمیشن کے پاس ثبوت ہیں کہ برآمد کی اجازت کے بعد چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا،چینی کی برآمد کے فیصلے کے بعد ذخیرہ اندوزی اور سٹہ ہوا،شوگر ایڈوائزی بورڈ چینی کی برآمد کو بروقت روکنے میں ناکام رہا، شوگر ملز مالکان کے چینی کی برآمد کیلئے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔خیال رہے کہ فرانزک آڈٹ رپورٹ میں چینی اسیکنڈل میں ملوث افراد کےخلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور ریکوری کرنےکی سفارش کی گئی ہے جبکہ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ریکوری کی رقم گنے کے متاثرہ کسانوں میں تقسیم کردی جائے۔اس حوالے سے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کہتے ہیں کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا ہے جن کی غفلت کے باعث بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے، عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں