چترال ضلعی انتظامیہ قانون کی دھجیاں اڑانے لگی؟کورونا وائرس کے خلاف لڑنے والے نرس کو بندوق کے زور پر ہراساں کیا گیا

چترال (گل حماد فاروقی) چترال ضلعی انتظامیہ قانون کی دھجیاں اڑانے لگی؟کورونا وائرس کے خلاف لڑنے والے نرس کو بندوق کے زور پر ہراساں کیا گیا۔سوشل میڈیا پر چترال میں کورونا وائرس کے خلاف پہلی صف میں لڑنے والے نرس تنویر کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر لوئر

چترال نے تمام صحت کے عملے کے سامنے انہیں بندوق کے زور پر ہراساں کیا اوران کی تضحیک کی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے گروپ کے ساتھ شفٹ کیا جا رہا تھا جو کورونا کے مشتبہ مریض تھے اور انہیں گزشتہ چھ روز سےپازیٹویٹیو کیسوں کے ساتھ قرنطینہ رکھا گیا تھا۔ جس پر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ انہیں اس گروپ کے ساتھ شفٹ نہ کیا جائے، کیونکہ یا تو انہیں مجھ سے یا پھر مجھے ان سے وائرس لگنے کا خدشہ ہے، جس پر انہیں اسسٹنٹ کمشنر نے گالیاں دیں اور بندوق کے زور پر زبردستی ایمبولینس میں ڈالنے کی کوشش کی ۔ تنویر آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی سے نرسنگ کے شعبے کے گریجویٹ ہیں اور آغا خان یونیورسٹی سے ہی نرسنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اپر دیر میں 16 گریڈ کے نرسنگ آفیسر بھرتی ہوئے ہیں۔ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ہمارے نمائندہ خصوصی نے سے بات کی۔ تنویر نے خصوصی گفتگو میں کہا کہ 16 اپریل کو چھٹی ہونے کے بعد وہ مجاز افسر کی باقاعدہ منظوری کے بعد اپر دیر سے چترال کی طرف سفر کر رہے تھےکہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے ذریعے مجھے رضاکارانہ طور پر سیلف قرنطینہ کرنے کی ہدایت کی گئی اور ان کے کہنے پر اپنا خون کا سیمپل ٹیسٹ کرانے کے لئے بھی رضامندی ظاہر کی ۔ ٹیسٹ سیمپل کے جانے کے دو دن بعد میرا رزلٹ نہ تو مثبت آیا نہ منفی (اسے میڈیکل کے زبان میں ان کنکلوسیو کہا جاتا ہے)۔ کل مجھے دوبارہ سیمپل دینے کے لئے ڈی ایچ کیو ہسپتال لے جایا گیا تھا، جب سیمپل دینے کے بعد میں مجھے 6 گھنٹے تک کھلی فضا میں باقی تمام لوگوں کے ساتھ کھڑا رکھا گیا جہاں اسسٹنٹ کمشنر وہاں آئے، انہوں نے انہیں کورونا کے مشتبہ کیسوں (جن کو پچھلے 6 دنوں سے پازیٹیو کیس کے ساتھ ایک ساتھ رکھا گیا تھا) کے ساتھ مجھے زبردستی ایمبولینس میں دھکیلنے کی کوشش کی، منع کرنے پر مجھے بندوق کے زور پر مجھے دھکے دے کر ایمبولینس میں بٹھانے کی کوشش کی۔ اسسٹنٹ کمشنر نے میرا موبائل چھین لیا، میرےڈیپارٹمنٹ کا این او سی چھین لیا اور پولیس نے مجھے گن پوائنٹ پر 6 منٹ تک کے رستے پر لوگوں کے سامنے مجھے پیدل لے جایا گیا۔ اللہ کا کرم یہ ہوا کہ ڈی ایچ او چترال کی موقع پر آمد ہوئی، انہوں نے مداخلت کر کے پولیس کےاہلکاروں کو الگ کر دیا اور میرے لئے الگ کمرے کا اہتمام کر کے مجھے ابھی قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ میں گزارش یہ کرتا ہوں کہ جس طرح ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر چترال نے اس معاملےکی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مجھے الگ کمرے میں منتقل کیا، اسی طرح دیگر لوگوں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چترال کے قرنطینہ سینٹرز کسی سائنسی اصول کے تحت نہیں بنائے گئے ہیں، تمام ڈسٹرکٹ میں عوام اور مریضوں کو پولیس، اے سی اور ڈی سی کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔ یہ صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں