لاہور (پی این آئی) معروف صحافی سہیل وڑائچ بی بی سی کے لئے لکھے گئے کالم میں کہتے ہیں کہ الیکشن سے پہلے تک بنی گالا عون چودھری پنجاب علیم خان اور پختونخوا پرویز خٹک کے مکمل قبضے میں تھے۔تینوں جہانگیرترین کی مٹھی میں تھے مگر پھر سب کچھ بدلنا شروع ہوگیا۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار
کے دوست اور ہوتے ہیں اور اپوزیشن کے دوست اور بالکل ایسا ہی جہانگیرترین کے ساتھ بھی ہوا۔ عدالت عظمی نے سیاست میں نااہل اور عمران خان کو اہل قرار دے کر ایک عملیت پسندانہ سیاسی لین دین کا فیصلہ کیا جس پر پی ٹی آئی سمیت کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔اقتدار ملنے سے پہلے عمران خان کی بشریٰ وٹو سے شادی ہوگئی اور اقتدار ملتے ہی عون چوہدری کی بنی گالا سے چھٹی ہوگئی۔علیم خان اپنے چارٹر جہاز پر عمران اور ان کی بیگم کو عمرے کے لئے لے گئے مگر وہاں کیا ہوا،علیم خان بیگم صاحبہ کی نظروں میں سمانا سکے اور پھر رفتہ رفتہ وہ بھی دور ہوتے گئے۔پرویز خٹک دوبارہ وزیر اعلی پختونخوا نہ بن سکے۔وفاقی وزیر بن گئے مگر اب بھی ناپسندیدہ لوگوں میں شامل ہیں۔ اقتدار کے چند ہی ماہ میں جہانگیر ترین کا قریبی حلقہ اثر عمران خان سے دور ہوتا گیا یا دور کردیا گیا۔ جہانگیر ترین اور عمران خان میں فاصلے بڑھنے لگے مگر جب بھی کوئی بڑا معاملہ ہوتا،کسی پارٹی سے ڈائیلاگ کی اتحاد کی بات ہوتی تو جانگیرترین کو بلایا جاتا مگر پھر وقفے بڑھتے گئے۔اس طرح عمران خان کی نئی کچن کابینہ بن گئی۔پرنسپل سیکرٹری اعظم خان،خاتون اول بشریٰ بی بی اور زلفی بخاری کابینہ کے اہم ترین رکن بن گئے۔وہ جہانگیرترین کا رہتا اثرورسوخ اور بھی کم ہوگیا۔جہانگیرترین سب دوستوں کا الزام ہے کہ عمران اور جہانگیر ترین نے غلط فہمیوں کا آغازآئی بی کی رپورٹ سے ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ جہانگیر ترین،اسپیکر اسد قیصر،پرویز خٹک اور کچھ دوسرے وزراء نے ایک غیر رسمی اجلاس میں پارٹی لیڈر اور پالیسیوں کے خلاف گفتگو کی۔عمران خان کے قریبی حلقے میں بات گردش رہی مگر پھر دم توڑ گئی،پھر عمران خان کے قریبی حلقے میں اسد عمر بھی شامل ہوگئے جو جہانگیر ترین کے خلاف پہلے سے ہی ہیں۔خان اور ترین کے درمیان فیصلے اس وقت بڑھے جب دونوں خاندانوں کی خواتین میں بھی نہ بن سکی۔اس کی ایک وجہ فرسٹ لیڈی کی روحانی کرامات کے حوالے سے ترین خاندان کی خواتین کی غیر محتاط گفتگو بھی بتائی جاتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں