کورونا وائرس کیخلا ف مزاحمت کرنیوالی دوا ’کلوروکوئین‘ نایاب ہو گئی، قیمت میں 25 گنا تک اضافے کا امکان

اسلام آباد (پی این آئی) کورونا وائرس کا علاج تو ابھی تک دریافت نہیں ہوا البتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کلوروکوئین دوا کو کورونا کے مریضوں کے لیے استعمال میں لانے کے اعلان کے بعد کلوروکوئین بنانے والے ملکوں میں اس دوا کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے۔پاکستان میں بھی کلوروکوئین کی

دستیابی کے حوالے سے ایک طرح کی بحرانی کیفیت ہے۔ اب تک پاکستان میں کل 38 ایسی دواساز کمپنیاں ہیں جن کے پاس کلوروکوئین دوائی بنانے کا اجازت نامہ ہے تاہم تقریباً سبھی کمپنیاں اب یہ دوائی نہیں بنا پا رہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔کلوروکوئین ہے کیا؟کلوروکوئین بنیادی طور پر ایک ملیریا مخالف دوا ہے جو بہت عرصے تک زیادہ مچھروں والے ممالک میں بہتات سے استعمال ہوتی رہی ہے۔ کلوروکوئین کی گولیوں میں بنیادی جزو ہائیڈراکسی کلوروکوئین ہوتا ہے جو ملیریا کے خلاف ایک موثر دوا ہے۔ادویات کے ماہر ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان شیروانی نےنیوز ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘کلوروکوئین کا کام یہ ہے کہ چونکہ ملیریا کے جراثیم خون کے سرخ ذرات پر پلتے ہیں تو کلوروکوئین خون کے ان سرخ ذرات میں ایسی ترمیم کر دیتی ہے جو ان جراثیموں کو مزید خوراک فراہم کرنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔پاکستان میں کلوروکوئین کی دوا بنانے کے لیے ہائیڈراکسی کلوروکوئین نامی سالٹ درآمد کیا جاتا ہے۔ چین، انڈیا اور جاپان دنیا کے وہ ممالک ہیں جو سب سے زیادہ ہائیڈراکسی کلوروکوئین برآمد کرتے ہیں۔پاکستان میں ادویات ساز کمپنیوں کی تنظیم پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیر ناگرا نے نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ ‘اس وقت کلوروکوئین دوا بنانے والا خام مال دستیاب نہیں ہے۔ پہلے ہائیڈراکسی کلوروکوئین ایک کلو 10 ڈالر میں دستیاب ہوتی تھی اب اس کی قیمت ایک کلو گرام 250 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے کوئی بھی کمپنی اس کو بنانے کا رسک نہیں لے رہی۔شوکت علی (فرضی نام) پاکستان کے شہر لاہور میں ادویات کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ‘پچھلے دو ہفتے سے کلوروکوئین نایاب ہو چکی ہے۔ جتنی بھی دوائی مارکیٹ میں دستیاب تھی وہ لوگوں نے خرید کے ذخیرہ کر لی ہے اور اب پیچھے کسی طرح کی سپلائی نہیں آ رہی۔کلوروکوئین ایک سستی دوا ہے، 100 گولیوں کا ڈبہ پونے تین سو روپے میں ملتا تھا اب تو پانچ ہزار میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ یہ سب اس وقت کے بعد سے ہے جب اس دوائی کو کورونا کے علاج کے طور پر تجویز کیا گیا حالانکہ اب اس بات کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے کہ یہ دوا واقعی پراثر ہے بھی یا نہیں، لیکن اس سے یہ ضرور ہوا ہے کہ مارکیٹ میں دوائی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے حتیٰ کہ ملیریا کے مریضوں کے لیے بھی دوا دستیاب نہیں ہے۔دوسرے لفظوں میں جتنی دوائی مارکیٹ میں دستیاب تھی وہ ذخیرہ اندوزوں کی نذر ہو گئی ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کمپنیوں کے پاس مزید دوائی بنانے کی گنجائش نہیں رہی۔عزیر ناگرا نے بتایا کہ ‘یہ دوائی ایسی تھی جس کا استعمال پاکستان میں بھی کئی برسوں سے کافی کم تھا اور قیمت پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے فکس کر رکھی تھی۔ اس حساب سے کمپنیوں کو کاروباری لحاظ سے یہ دوائی بنانا منافع بخش نہیں لگتا تھا اس لیے مارکیٹ میں اس کی مقدار کم تھی اور اس کا خام مال بھی کم ہی

درآمد کیا جاتا تھا۔ ‘کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اچانک یہ دوائی اتنی قیمتی ہو جائے گی، ہم لوگ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے اب کچھ اقدامات ہو رہے ہیں۔بحران کی تیسری وجہ موجودہ حالات میں اس دوائی کی قیمت میں غیر معمولی لاگت کے باعث مہنگا ہونا ہے۔ دستیاب قوانین کے باعث ابھی حکومت نے اس کی نئی قیمت تجویز نہیں کی ہے۔ادویات ساز کمپنیاں یہ سمجھتی ہیں کہ حکومت تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ چیئرمین پاکستان فارماسوٹیکل ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت اب سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ ابھی دو روز پہلے کچھ قوانین میں نرمی کی گئی ہے اور ہر ادویہ ساز کمپنی کو کلوروکوین بنانے کا اجازت نامہ دینے کی ہامی بھر لی ہے۔ اس سے پہلے یہ تھوڑی کمپنیوں کے پاس تھا۔’اس کے علاوہ ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ خام مال کی سستی درآمد میں بھی حکومت اپنا کردار ادا کرے گی اور پھر اسی طرح نئی قیمتوں کا بھی تعین ہونا چاہیے۔خیال رہے کہ پاکستان کی فارما سوٹیکل کی صنعت 9 ارب ڈالر سالانہ کی ہے اور کپڑے کی صنعت کے بعد سب سے زیادہ برآمدات اسی شعبے سے وابستہ ہیں تاہم اس صنعت کا سب سے زیادہ انحصار خام مال کی درآمد پر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان نیوز انٹرنیشنل (پی این آئی) قابل اعتبار خبروں کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو 23 مارچ 2018 کو قائم کیا گیا، تھوڑے عرصے میں پی این آئی نے دنیا بھر میں اردو پڑہنے، لکھنے اور بولنے والے قارئین میں اپنی جگہ بنا لی، پی این آئی کا انتظام اردو صحافت کے سینئر صحافیوں کے ہاتھ میں ہے، ان کے ساتھ ایک پروفیشنل اور محنتی ٹیم ہے جو 24 گھنٹے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے متحرک رہتی ہے، پی این آئی کا موٹو درست، بروقت اور جامع خبر ہے، پی این آئی کے قارئین کے لیے خبریں، تصاویر اور ویڈیوز انتہائی احتیاط کے ساتھ منتخب کی جاتی ہیں، خبروں کے متن میں ایسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتا جاتا ہے جو نا مناسب ہوں اور جو آپ کی طبیعت پر گراں گذریں، پی این آئی کا مقصد آپ تک ہر واقعہ کی خبر پہنچانا، اس کے پیش منظر اور پس منظر سے بر وقت آگاہ کرنا اور پھر اس کے فالو اپ پر نظر رکھنا ہے تا کہ آپ کو حالات حاضرہ سے صرف آگاہی نہیں بلکہ مکمل آگاہی حاصل ہو، آپ بھی پی این آئی کا دست و بازو بنیں، اس کا پیج لائیک کریں، اس کی خبریں، تصویریں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں شیئر کریں، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، ایڈیٹر

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں