وزیراعلیٰ پنجاب کو ماہرین اور حکام کی جانب سے کرونا وائرس پر بریفنگ لیکن اختتام پر وزیراعلیٰ نے ایسا سوال پوچھ لیا کہ ہر کوئی سر پکڑ کر بیٹھ گیا

لاہور(پی این آئی) چند روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو ماہرین اور حکام کی طرف سے کورونا وائرس پر ایک تفصیلی بریفنگ دی گئی اور اس کا مقصد یہ تھا کہ انہیں مکمل معلومات فراہم کی جائیں تاکہ سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بروقت درست فیصلے لے سکے لیکن بریفنگ کے اختتام پر وزیراعلیٰ

عثمان بزدار نے استفسار کیا کہ ” یہ کورونا کاٹتا کیسے ہے؟“۔ایک انگریزی جریدے میں فہد حسین نے لکھا کہ پنجاب کے معاملات پر صوبے کے سربراہ کے اس سوال سے بڑی مثال نہیں ہوسکتی ، وزیراعلیٰ کے اس سوال اور کورونا کی سنگینی کے درمیان موجود خلا کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں، رواں سال جنوری میں ہی دنیا نے چین کی صورتحال پر فکر کرنا شروع کردی تھی ، فروری سے ایران بھی کرائسز کی زد میں آگیا اور چھبیس فروری کو پاکستان میں پہلا مریض سامنے آگیا تھا جبکہ پاکستانی قیادت کی قومی سطح کی پہلی میٹنگ وزیراعظم کی زیرصدارت 13مارچ کو ہوئی ،اس سے پہلے ہم سوئے رہے ، آج بھی ہم کیوں کھڑے ہوئے ؟ اب آفت سرپر آگئی ہے تاہم ابھی کچھ معاملات معمول کا بزنس ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد حکومتی مشینری حرکت میں آئی ، مثال کے طورپر وفاقی حکومت کو یہ احساس ہوا کہ تین نہایت اہم چیزیں پاکستان کو درکار ہیں جن میں وینٹی لیٹرز، ڈائگناسٹک ٹیسٹنگ کٹ اورطبی عملے کے لیے پرسنل پروٹیکشن کٹس وغیرہ شامل ہیں، اب چونکہ تاخیر ہوچکی ہے لیکن پھر بھی حکام ان چیزوں کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے بھرپور کاوش میں ہیں، اس کے لیے وہ چیزیں اور پیسہ دونوںدستیاب ہونا ضروری ہیں، اب دلچسپ صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہمارے پاس کچھ پیسہ توموجود ہے لیکن وہ چیزیں دستیاب نہیں، ان تمام چیزوں کیلئے 325ملین ڈالر درکار ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کے پاس تقریباً31ملین روپے موجود ہیں، عالمی بینک نے صوبوں کو براہ راست 38ملین ڈالر دیئے ہیں جو اب کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے استعمال ہورہے ہیں، نیشنل ڈیزاسٹررسک منیجمنٹ فنڈ نے بھی 50ملین ڈالر مختص کردیئے ہیں، یہ تمام رقم فوری طورپر کورونا سے لڑنے کے لیے آلات کی خریداری کیلئے دستیاب ہوسکتی ہے ۔ہم نے چونکہ دیر کردی ہے اور اب پوری دنیا ان چیزوں کی تلاش میں ہے ، وہ سب فوری طورپر ایک ہی دفعہ ملنی ممکن نہیں، پاکستان نے انٹرنیشنل مارکیٹ میں کئی کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے اور ان میں سے بیشتر کا جواب یہی تھا کہ ان کے پاس سٹاک ہی دستیاب نہیں، ایک ہی ملک کے پاس یہ آلات دستیاب تھے لیکن یہاں بھی ہم پر متحدہ عرب امارات بازی لے گیا اور کئی ہفتوں کیلئے دستیاب سٹاک کی ایڈوانس بکنگ کروالی ، ہم اکیلے نہیں ، ہماری طرح کئی اور ممالک کو بھی مشکلات کا سامنا ہے لیکن ہم جتنی تاخیرزیادہ ممالک نے نہیں کی ۔فہد حسین نے اخبارکیلئے لکھتے ہوئے سوال اٹھایاکہ ہم اپنے سفارتخانوں کو یہ ٹاسک کیوں نہیں سونپتے کہ متعلقہ چیزیں تیارکرنے والوں تک پہنچیں اور ہمارے لیے وینٹی لیٹرز،

ٹیسٹنگ کٹس اور پروٹیکٹو کٹس ڈھونڈیں ، ہروہ طریقہ اپنائیں جس سے ہمیں مل سکتے ہیں، اس طریقے میں ہمارے سفارتکار” چیف پروکیورمنٹ آفیسرز “ بن جائیں گے اور جلد ازجلد آلات خرید سکیں گے ، یہ خیال شاید این ڈی ایم اے کو بھی پسند آیا اور بدھ کو دفتر خارجہ کو ایک خط لکھ دیا جس کیساتھ وفاق اور صوبوں کی سطح پر درکار 29چیزوں کی فہرست بھی تھی ، این ڈی ایم اے نے یہ بھی درخواست کی کہ بیرون ملک موجود ہمارے مشنز کیساتھ شیئرکیا جائے تاکہ پاکستانی کمیونٹی اور ڈونرز کی معاونت بھی لی جاسکے۔حکام نے بتایاکہ پاکستان کے پاس اس وقت ڈیڑھ ہزار وینٹیلیٹرز ہیں، ہمیں مزید ڈیڑھ ہزار وینٹیلیٹرز اور ایک لاکھ ٹیسٹنگ کٹس درکار ہیں۔اس ساری کاوش کے دوران ایک بڑی رکاوٹ نیب بھی بن گیا، نیب سے خطرے کی وجہ سے کوئی بھی شخص کچھ خریدنے کو تیار نہیں،لیکن سندھ نے انتظار نہیں کیا اور پہلے ہی دس ہزار کٹس خرید چکے ہیں، اور سینئر حکام کے مطابق یہ ابتدائی طورپر کافی ہیںاور صوبائی حکومت اپنی لیب کی استعداد بھی بڑھارہی ہے ، تقریباً دو سو ٹیسٹ روزانہ ہورہے ہیں۔انہوں نے مزید لکھا کہ رقم سے آلات خریدے جاسکتے ہیں لیکن کیا اس سے توجہ حاصل کی جاسکتی ہے؟ میڈیا آگاہی منصوبہ کہاں غائب ہے ؟ یقین ہے کہ بہت سی تنظیمیں عوام کو آگاہی دینے کے پیغامات شیئرکررہی ہیںاور معلومات پر مبنی مواد بھی تیار ہورہاہے جو ٹی وی چینلز پر بھی دکھائی دے رہاہے۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں