اسلام آباد(پی این آئی)قومی احتساب بیورو(نیب)نے کتنے کھرب روپے کی ریکوری کروا لی ؟اہم تفصیلات آگئیں۔۔۔ پاکستان میں احتساب کے لیے قائم ادارے نیب نے اپنے قیام کے پہلے 18 برس میں تین کھرب، 24 ارب، 52 کروڑ 70 لاکھ سے زائد روپے کی ریکوری کی ہے۔ ان میں 47 ارب، 51 کروڑ 90 لاکھ سے زائد
روپے رضا کارانہ واپسی یا پلی بارگین کے ذریعے وصول کیے گئے ہیں۔معروف اردو ویب سائٹ کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق نیب نے اپنے قیام کے پہلے چار سال میں کل وصولیوں کا 58 فیصد یعنی ایک کھرب 88 ارب روپے وصول کر لیے تھے۔ باقی 14 سالوں میں صرف ایک کھرب 36 ارب روپے ہی وصول کیے جا سکے ہیں۔سنہ 2000 سے لے کر 2018 تک نیب نے سب سے زیادہ وصولیاں سال 2001 میں 88 ارب 26 کروڑ روپے کی کیں جبکہ سال 2016 میں سب سے زیادہ پانچ ارب، 67 کروڑ، 60 لاکھ روپے پلی بارگین کے ذریعے وصول کیے گئے۔ سال 2010 میں سب سے زیادہ پانچ ارب، 88 کروڑ روپے رضاکارانہ طور پر واپس ملے۔نیب حکام کے مطابق ابھی تک سال 2019 کے اعداد و شمار مرتب نہیں کیے گیے تاہم 2018 میں نیب نے 28 ارب ساڑھے 88 کروڑ روپے وصول کیے تھے۔ نیب کے لیے وصولیوں کا آسان ذریعہ لوٹی ہوئی رقوم کی رضاکارانہ واپسی رہا ہے لیکن سال 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے اس پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد اب رقوم کی واپسی میں مزید پیچیدگیاں حائل ہو گئی ہیں۔نیب حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ تفتیشی عمل کے دوران نیب ملزم کو پلی بارگین کی پیش کش کرتا ہے جس کے تحت ملزم سے نہ صرف لوٹی گئی تمام رقم ریکور کی جاتی ہیں بلکہ اس کو مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ پلی بارگین کی حتمی منظوری احتساب عدالت ہی دیتی ہے۔نیب کے جلد از جلد لوٹی ہوئی رقوم کے واپسی کے دعووں اور نیب ہی کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو 18 سال میں پلی بارگین اور رضا کارانہ واپسی کے ذریعے واپس لی گئی رقم کل وصولیوں کا سات فیصد سے بھی کم بنتی ہے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ ’بڑے مقدمات میں جو بڑی گرفتاریاں ہوئی ہیں وہاں پر پلی بارگین بھی ہو رہی ہے۔‘ان کے مطابق ’کوئی بھی بڑا آدمی یا سیاستدان جو کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہوتا ہے وہ پلی بارگین نہیں کرتا بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاست بچائے اور مقدمہ بازی میں جائے تاکہ وہ وقت گزار سکے اور وہ انتظار کرتا ہے کہ آٹھ دس سال گزر جائیں اور حالات بدل جائیں اور اس کی بچت ہو جائے۔‘ماضی میں نیب کے ساتھ کام کرنے والے پراسیکیوٹر شہزاد انور بھٹی کہتے ہیں کہ ’ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور مضاربہ جیسے سکینڈل میں عوامی پیسہ شامل ہوتا ہے۔ عوام کو فراڈ کرنے والے کو سزا دلوانے سے زیادہ اپنے پیسوں کی واپسی میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لیے نیب پلی بارگین کرکے عوام کا پیسہ واپس دلوانے کی کوشش کرتی ہے۔‘’اگر 10 سال مقدمہ چلنے کے بجائے فراڈ کرنے والے کو سزا ہو بھی جاتی ہے تب بھی لوگوں کا پیسہ واپس نہیں آتا۔امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پلی بارگین کا قانون موجود ہے اس پر عمل بھی ہو رہا ہے۔‘تاہم نیب میں متعدد مقدمات میں بطور وکیل پیش ہونے والے لطیف کھوسہ کا موقف ہے کہ ’پلی بارگین سیدھ سیدھا اغوا برائے تاوان کا (معاملہ) ہے‘۔ ایسے ہی ایک بندے کو پکڑا اور اسے کہا کہ پیسے دو
نہیں تو مقدمہ بھگتو۔ 10 سال بعد بری بھی ہو جاو گے تو کیا ہوا۔ گرفتاری اور مقدمے کے بعد ’عزت سادات‘ تو گئی وہ تو واپس نہیں آئے گی۔لطیف کھوسہ کے بقول ’اسلامی نظریاتی کونسل بھی پلی بارگین کو غیر شرعی قرار دے چکی ہے۔ پاکستان کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ یہ کہتا ہے کہ ملک میں خلاف شریعت کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کو مان کر اسے ختم کر دینا چاہیے۔‘پلی بارگین کا قانون سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں 2002 میں لاگو کیا گیا تھا۔ پلی بارگین سے متعلقہ نیب آرڈیننس کی شق 25 دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ اس کی شق ’اے‘ رقم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق ہے جس کے تحت اگر کسی شخص کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں اور یہ معاملہ ابھی انکوائری تک ہی محدود ہے تو اس میں ملزم کے پاس اختیارہے کہ وہ انکوائری کے دوران کسی بھی مرحلے میں رضاکارانہ طور پر رقم واپس کر سکتا ہے جس کے بعد اسے کسی قانونی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن اس کے لیے نیب کے چیئرمین کی منظوری لینا ضروری ہے۔نیب آرڈیننس ایکٹ کی شق 25 کا ’بی‘ حصہ پلی بارگین سے متعلق ہے جس میں اگر کوئی معاملہ انکوائری سے تفتیش کے مرحلے تک پہنچ جاتاہے تو اس مرحلے میں کسی بھی موقعے پر ملزم رقم واپس کرسکتا ہے۔تفتیش کے مرحلے میں اگر ملزم کی پلی بارگین منظور ہو جاتی ہے تو اس کو قانونی پابندیوں کا سامنا ہوتاہے جس میں اگر وہ سرکاری ملازمت میں ہے تو اس کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسا شخص کوئی بھی عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ایک خاص مدت کے لیے الیکشن لڑنے اور بینکوں سے قرض لینے کا اہل ہو تا ہے۔چیئرمین نیب کی حتمی منظوری کے بعد یہ معاملہ عدالت میں بھجوایا جاتا ہے اور عدالتی منظوری کے بعد ملزم سے رقم کی ادائیگی کے لیے کہا جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں