لاہور(پی این آئی)ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی عارف حمید بھٹی کا کہنا ہے کہ لندن سے نواز شریف تو کیا کسی مریض کو نہیں لایا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ کا یہ قانون ہے کہ اگر وہاں کوئی مریض زیرعلاج ہو تو ڈاکٹرکی اجازت کے بغیر اسے کہیں بھی نہیں لے جایا جا سکتا۔اس حوالے
سے برطانوی ماہر قانون صاحبزادہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو ابھی تک کسی بھی ہسپتال میں منتقل نہیں کیا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ نوز شریف کو واپس لانے کے لیے قانونی راستہ اختیار کررہے ہیں لیکن سابق وزیراعظم کو واپس لانا بہت زیادہ مشکل ہے۔ واضع رہے کہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی واپسی کا وقت آ پہنچا، اگلے ہفتے ڈی پورٹ کرانے کے لیے برطانوی حکومت کو خط لکھیں گے۔انھوں نے کہا تھا کہ امریکا، افغان، طالبان امن معاہدہ عمران خان کے نظریئے کی تائید کرتے ہیں، افغانستان میں امن پورے خطے کے استحکام کے لئے ضروری ہے، امن معاہدے کیلئے پاکستان کا کردار سنہری حروف میں لکھا جائیگا۔اس سے قبل سینئر تجزیہ کار حامد میر نے دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف واپس آئیں گے اور سیدھا جیل جائیں گے۔ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے نجی چینل کے پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف واپس ضرور آئیں گے۔اور واپس آکر سیدھا جیل جائیں گے۔ نواز شریف جیل جانے کے لئے ہی پاکستان واپس آئیں گے ۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف علاج کرانے گئے تھے علاج مکمل ہونے کے بعد واپس آجائیں گے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز سے متعلق حامد میر کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں مریم نواز کو باہر جانے کی اجازت ملے گی یا نہیں تاہم انہیں باہر نہیں جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف علاج کی غرض سے لندن میں موجود ہیں ۔جہاں ان کے بھائی سابق وزیراعلیٰ شہبا زشریف ، ان کے بیٹے اور ماں ان کے پاس موجود ہیں۔ تاہم اب حکومت پنجاب نے نواز شریف کے علاج میں مزید وقت مانگے کی درخواست بھی مسترد کر دی ہے۔بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی لندن میں پراسرار سرگرمیاں اور خفیہ ملاقاتیں ان کی ضمانت منسوخی کا سبب بنیں۔معروف صحافی رانا عظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نواز شریف کو ضمانت دینے کے لیے پنجاب حکومت کے اندر دو آرا تھیں،کچھ لوگ توسیع کے حوالے سے موقف رکھتے تھے کہ حکومت خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے عدالتی رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں