اسلام آباد (پی این آئی)امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ محرومی کے احساس کو ختم کر نا ہے تو آئین پر عمل کر نا ہوگا ،آئین اسلامی اور جمہوری ہے پھر بھی اسلام اورجمہوریت نہیں آسکی ،عوام ایک باکس میں ووٹ ڈالتے ہیں ، گنے کسی دوسرے باکس سے جاتے ہیں،اس
عمل سے جمہوریت کا قتل کیا جاتا ہے ،اگر عدلیہ اور وکلا برادری آئین و قانون کو تحفظ نہ دے سکیں تو ملک کہاں جائے گا، خارجہ پالیسی بھی تب مضبوط ہوگی جب معیشت مضبوط ہوگی۔ اتوار کو امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تحفظ آئین پاکستان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان ایک میثاق ملی ہے،اگر اذئین پر عملدرآمد ہورہا ہے تو پھر سب ایک قوم ہیں ،اگر اس میثاق ملی پر عمل نہیں ہورہا ہے تو یہ ردعمل فطری ہے۔ انہوںنے کہاکہ محرومی کے احساس کو ختم کرنا ہے تو آئین پر عمل کرنا ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ آئین اگر اسلامی ہے تو اسلامی ہونے کے باجود یہاں اسلام نہیں آسکا،اگر آئین جمہوری ہے تو آج تک یہاں جمہوریت نہیں آسکی۔ انہوںنے کہاکہ عوام ایک باکس میں ووٹ ڈالتے ہیں لیکن گنے کسی دوسرے باکس سے جاتے ہیں،اس عمل سے جمہوریت کا قتل کیا جاتا ہے ۔انہوںنے کہاکہ ہمارا آئین وفاقی ہے جسکے تحت کئی واحدتیں ہیں،18 ویں ترمیم سے صوبوں کے اختیار میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے ہاں آزادی اور غلامی کی تفریق پر بھی قدغن لگائی گئی ہیں،معاملہ سنجیدہ ہے الفاظ میں سختی آسکتی ہے اسکے محرکات کیا اسکا ازالہ کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں؟،جس نے اپنے حقوق کی بات کی ہم نے اسے غدار کہا،ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے وفادار پیدا کرے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اس ملک میں عدلیہ نہ ہو اور عدلیہ کے چیف جسٹس عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلائیں۔ انہوںنے کہاکہ جس جج کے فیصلے اچھے نہ لگیں انکے خلاف ریفرنس آجاتے ہیں،قانون کو طاقتور جب چاہیں اسکی شکل بگاڑ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر عدلیہ اور وکلا برادری آئین و قانون کو تحفظ نہ دے سکیں تو ملک کہاں جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ ہمارا فرض ہے کہ میثاق ملی کا تحفظ کریں۔ انہوںنے کہاکہ آئین میں جب ہر شہری کو مطمئن کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو ہر شہری میدان میں حقوق کی بات کیوں کررہا ہے؟۔ انہوںنے کہاکہ ہم سب وہ لوگ ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ، کسان و مزدور کے حق، مردو عورت کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کیا انسانی حقوق کے تعین کے لئے قرآن و سنت کو معیار بنایا جائے یا اپنی معیار کے مطابق ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے ملک میں آئین ہے مگر آزاد اور زندہ نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ آئیں اتفاق کریں کہ آئندہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ آئین پاکستان ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ قبائلی دنیا میں دفاعی قوت ریاست کی بقاء کا مدار بنتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ملکی معیشت تباہ ہوگئی ہے لوگ ملک سے باہر جارہے ہیں ،پاکستان میں سرمایہ کار کا سرمایہ غیر محفوظ ہوگیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ملک میں کارخانے بند ہورہے ہیں اور مہنگائی عروج پر جارہی ہے،ان نااہلوں نے شرح نما دو فیصد دیکھایا جو جھوٹ تھا۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ سال کی نسبت گندم میں 30 فیصد اور چاول کی پیدوار میں 40 فیصد کمی آئی۔ انہوں نے کہاکہ بڑے زمیندار نے کہا ہے کہ ہم اسلام آباد آرہے ہیں اور اپنے بچوں کو برائے فروخت کریں گے،ہماری معیشت بیٹھ گئی سرحدیں بیٹھ گئیں ،تم نے کہا تھا اس سال میں ہم 15 ملین بیلز حاصل کریں جو 8 فیصد بھی نہیں ہورہا۔ انہوںنے کہاکہ انھوں نے چین سے کہا کہ آپ پاکستان سے اشیاء خریدیں،چینی حکومت نے اسی اجلاس میں کہا کہ ایک ارب ڈالر آپکو دیتے ہیں مال دو۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ مجھ پر آرٹیکل 6 لاگو کرنے کی بات کی جاتی ہے اس پر بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے،جو شخص اپنی جان ہتھیلی پر لئے گھوم رہا ہے تم اسے ڈراتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی بھی تب مضبوط ہوگی جب معیشت مضبوط ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ بھارت میں یہ ہی بی جے پی کہتی تھی آئو تجارت پر بات کرو ۔ انہوںنے کہاکہ آج وہی بی جے پی کی پھر حکومت ہے لیکن اسکا رویہ کیا ہے سب دیکھ لیں،ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کے معاہدوں سے آپ کس کے کہنے پر پیچھے ہٹے؟۔ انہوںنے کہاکہ آج سی پیک کو ناکام بنانے کے کئے نواز شریف کا نااہل کرنا ضروری تھا ۔ انہوںنے کہاکہ نواز شریف اور زرداری سمیت سیاستداتوں کو سزائیں اسی مقصد کے لئے دی جارہی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی
اقتصادی قوت گر گئی ہے،ماضی میں معیشت مضبوط ہونے پر واجپائی نے پاکستان آ کر تجارت کی درخواست کی۔ انہوںنے کہاکہ حکومت کے پاس بھارت کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ملک پر ملکی مفادات کا قتل کرنے والے لوگ مسلط ہیں،حکومت نے سی پیک کو عملا سرد خانے میں ڈال دیا ہے،حکومت نے جو حال بی آر ٹی کا کیا وہی سی پیک کا کر رہی ہے، حکومت بتائے تاپے منصوبے کا کیا بنا،کشمیر بیچا گیا ہے اگر انسانی حقوق کی بات کریں گے تو فاٹا میں بھی کریں،جبر کی بنیاد پر جمہوری حکومتیں نہیں چلا کرتیں ،وہ بھی کہتا تھا میرے پشت پر فوج ہے، امریکا ہے یورپ ہے۔ انہوںنے کہاکہ جب یہ فقیر نعرہ لگا کر میدان میں اترے تو اسکی رعونت کو خاک میں ملایا،پاکستان میں اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ کوئی سفارتی آداب ہیں نا جمہوری اقدار ہیں،جیسے امریکا کو ٹرمپ نصیب ہوا، انڈیا کو مودی ویسے ہمیں عمران خان ملا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ہم آئین و قانون کے دائرے کی بات کرتے ہیں،ہمیں ہر وقت مانیٹر کیا جارہا ہے کہ ریڈ لائن تو کراس نہیں کی؟،ریڈ لائن میری بھی ہے اپکو بھی میرے ریڈ لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،مجھے امریکا مخالف کہا جاتا ہے میں نے امریکا سے کہا ہم آپکے دشمن نہیں بلکہ ہم آپکی غلامی نہیں چاہتے۔ انہوںنے کہاکہ اگر افغانستان میں کوئی معاہدہ ہو تو وہاں کے لوگوں نے کیا انکا اختیار ہے،ہمیں افغانستان میں امن کے عمل کی حمایت کرنی چاہیے،پاکستان کے لئے پرامن افغانستان ضروری ہے،ہم کسی صوبے کی تحریک کے محرک نہیں لیکن ان کیساتھ ہیں،فاٹا صوبے کے محرک ہم ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں