اسلام آباد(این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ایک ماہ کے دوران 2 ارب 27 کروڑ ڈالرز مالیت کی ترسیلات زر بھجوائیں اور یہ مسلسل آٹھواں مہینہ ہے جس میں ترسیلات زر کا حجم 2 ارب ڈالر سے زیادہ رہا۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ جنوری 2021 کے دوران
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 2 ارب 27 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر بھجوائیں، جو کہ گزشتہ برس کے اسی مہینے کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے، یہ مسلسل آٹھواں مہینہ ہے جس میں ترسیلات زر کا حجم 2 ارب ڈالر سے زیادہ رہا۔ رواں برس اب تک گزشتہ برس کے مقابلے میں 24 فیصد زائد ترسیلات زر بھجوائی گئی ہیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور اس پر وہ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے شکر گزار ہیں۔اپنی دوسری ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (بڑے پیمانے پر پیداواری شعبہ) کے حوالے سے بھی اچھی خبر بتاتے ہوئے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں دہرے ہندسے کی نمو دیکھنے میں آئی ہے، دسمبر 2019 کے مقابلے میں دسمبر 2020 میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 11 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ ہوا، اس طرح جولائی 2020 سے دسمبر تک لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے، صنعتی شعبے میں بھی خوشخبری مستحکم نمو کی عکاس ہے۔۔۔۔بجلی کیوں مہنگی ہوتی جارہی ہے؟ سابق وزیر خزانہ نے حقیقت بتا دی اسلام آباد(پی این آئی) پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ حکومت نے بجلی کے نرخوں میں 1.95 روپے فی یونٹ اضافہ کیا تھا۔ رواں ماہ نیپرا نے دسمبر کے لئے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز میں 1.53 روپے فی یونٹ اضافے اور 2020 کی چوتھی سہ ماہی کے لئے سہ ماہی
ایڈجسٹمنٹ میں 0.83 روپے اضافے کا تعین کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے ذریعہ لگائے گئے کوئلے کے پلانٹ اس سے بھی زیادہ سستے ہیں اور نوسے 10روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرتے ہیں ۔جس میں فی یونٹ فکسڈ قیمت کی لاگت پانچ روپے اور فی یونٹ ایندھن کی لاگت بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی بجلی کی قیمت صنعت لے لیے 20.73 روپے فی یونٹLeftwards arrow، کمرشل 23.55 روپے فی یونٹ اور پانچ کلو واٹ کنکشن والے گھر 22.65 روپے فی یونٹ ہے۔ مفتاح اسماعیل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے لکھاکہ اب بھی اتنا زیادہ سرکلر قرض کیوں چلا رہے ہیں اور حکومت نے بجلی کی نرخوں میں اضافہ کیوں کیا؟ اس کی پانچ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ حکومت صرف 88 فیصد بل جمع کرتی ہے۔ 12 فیصد صارفین بجلی کی ادائیگی نہیں کرتے اور ہم سب کو ان کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ پی ایم ایل این کے تحت بل کی وصولی 87 فیصد سے بڑھ کر 93 فیصد ہوگئی تھی لیکن تحریک انصاف کے 2 سالوں میں اسے واپس لایا گیا ہے۔دوسرے وجہ یہ ہے کہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نقصانات 2013 میں 21 فیصد تھےاور 2018تک کم ہوکر 18 فیصد ہو گئے جو اب دوبارہ بڑھ کر 19 فیصد ہو گئے ہیں۔ یہ تحریک انصاف کے تحت ایک نمایاں نقصان میں اضافہ ہے۔مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ تیسری بڑی وجہ یہ کہ
اچانک روپے کی قدر میں بھاری کمی کے نتیجے ادائیگی میں اضافہ ہوا کیونکہ ادائیگی ڈالر پر مبنی ہے۔تحریک انصاف کا سود کی شرح میں دگنا اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئی پی پیز پر دیر سے ادائیگی کے معاوضے دگنےسے زیادہ ہوجاتے ہیں۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ناقابل یقین حد تک مہنگے ایل این جی کی خریداری کی گئی ہے۔اگر حکومت وقت پر یہ خریدتی ، جیسے ہندوستان یا بنگلہ دیش نے کیا ، تو ایل این جی پر 30 سے 50فیصداور اربوں روپے کی بچت کی جاسکتی تھی۔ مفتاح اسماعیل نے پانچویں بڑی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کا فرنس آئل اور ڈیزل کے ذریعہ بجلی بنانے کا حیران کن فیصلہ ہے۔ مثال کے طور پر دسمبر میں 1.53 روپے کے اضافے کے دوران نیپرا نے حکومت کی درخواست کو قبول کرلیا ہے کہ اسے ڈیزل کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے میں 55 کروڑ روپے اضافے کی اجازت دی جائے۔ جاپان ، امریکہ اور سعودی عرب تک ڈیزل کے ذریعہ گرڈ پاور نہیں تیار کرتے ہیں کیونکہ یہ اتنا مہنگا ہوتا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کرتی ہے۔ ایسا کرنے کی کوئی قابل فہم وجہ نہیں تھی۔ اور گزشتہ سال دسمبر میں تین بلین روپے کا فرنس آئل استعمال ہوا۔ فرنس آئل کی قیمت دوگنا اور ڈیزل این ایل جی کی قیمت سے تین گنا زیادہ ہے۔ اگر حکومت نے ایل این جی درآمد کی ہوتی تو فرنس آئل اور ڈیزل کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے کی
ضرورت نہ پڑتی۔ اس لئے ہمیں فروری میں اضافی ادائیگی کرنے کی ایک وجہ حکومت کے ڈیزل /فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا فیصلے ہے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ کل پیداوار کی لاگت 15 روپے ہے، اس کا موازنہ ایل این جی پلانٹوں سے کریں جو پی ایم ایل این کے ذریعہ لگائے گئے ہیں جس کی فکسڈ قیمت چار روپے ہے مگر فیول کی لاگت صرف چھ روپےہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے جو پاور پلانٹ قائم کیا ہے اس سے پاکستان میں سستی ترین تھرمل بجلی پیدا ہوتی ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں