تسبیحات بلاناغہ ضروری، پروفیسر احمد رفیق اختر کی قیمتی باتیں

*اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ ” وفا” پسند ہے ۔۔۔۔یہ نہیں کہ آج پڑھا اور کل ناغہ کر لیا۔۔۔۔وہ پوچھے گا ضرور کہ آج مجھ سے کیا چیز ؛ تمہیں زیادہ اہم لگی؛ کہ تم نے ناغہ کر لیا۔

  • اس لیے میں چاہتا ہوں کی تسبیح میں ناغہ نہ آئے ۔۔۔باقی جیسے مرضی پڑھ لیجئے ۔۔۔تھوڑا؛ زیادہ؛ رات کو؛ دن کو؛ سارا دن؛ ساری رات ۔۔۔جب چاہے پڑھ لیجئے ۔
  • جب آپ کو یقین ہو جائے کہ تسبیح آپ کا جزو دل و دماغ ہو گئی ہے تو جس کو چاہیں؛ بتائیں ۔۔۔ہر شخص کے لیے اُس کے تکنیکی پہلوؤں کے لحاظ سے تسبیح ہے۔۔۔اس ضمن میں کوئی حجاب اور سَتر نہیں ہے۔کہ اس کے اثرات افشاء کیے جائیں۔
  • یہ پُرانے زمانے کے یہودیوں کے طریقے تھے کہ کہیں دوسرا بندہ کسی چیز سے آگاہ نہ ہو جائے ۔۔۔گھٹیا پہلوان سارے گُر نہیں سکھاتا تھا تاکہ شاگرد اچھا گُر سیکھ کر کہیں اُسے ہی نہ گرا دے۔۔۔رازداری اور خوف پیدا کرنا Occult اور جادوگروں کا پیشہ رہا ہے ۔۔۔اللہ کے بندوں کا نہیں۔۔۔وہ تو چاہتے ہیں کہ خدا کا ذکر اسکی یاد اور اسکا تعلق عام ہو ۔مگر اہم یہ ہے کہ کسی آدمی کو سمجھا جائے اور اُس کےمطابق تسبیح دی جائے۔۔۔یہ ٹیکنالوجی شاید ہر آدمی کے بس کی بات نہیں ۔
  • تسبیح مہندی کی طرح یا سبز چائے کی طرح ہے جو ہُولے ہُولے رنگ چھوڑتی ہے ۔۔۔اس علم میں دُنیاوی علوم کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔میں سادہ پوسٹ گریجوئٹ؛ انگلش میں ہوں ؛ لیکن وہ تمام شاید اس رحجان کے مالک نہیں ہوں گے ۔۔۔اس بچے کا تصور کیجئے ؛ جس نے پانچ سال کی عمر سے مطالعہ شروع کر دیا ہو ؛ دسویں جماعت تک میں نے ڈاکٹر ژاگو اور مائیکل شولوخوف پڑھ رکھے تھے۔۔۔اسطرح بخاری اور مُسلم کا مطالعہ کر لیا تھا ۔۔علمی تجسس آگے بڑھتا ہوا فطری استحکام تک پہنچتا ہے۔
  • جس کو دعوی عقل اور دعوی جستجو و تحقیق ہو ؛ اسکا فطری انجام اللہ ہے ۔۔۔آپ اور کہیں جا ہی نہیں سکتے۔۔۔۔ اور جہاں علم رُکے گا آپ کسی کلاس کے خوگر ہو جائیں گے ۔۔۔کسی
    partisanship بےجا حمایت
    میں چلے جائیں گے ۔۔۔یا کسی جماعت کے پیروکار ہو جائیں گے۔۔۔وہاں ایک بُت پیدا ہوجائےگا ۔۔۔آپ کی ذہنی ترقی رُک جائے گی۔۔۔آپ آگے بڑھنے سے انکار کر دیں گے۔۔۔
    سو جسے occult کہتےہیں۔ وہ جماعتوں میں پیدا ہوتا ہے۔۔۔اور مسلمان ہر حال میں آزاد ہوتا ہے۔۔۔جب مجھے خدا کے بارے میں سوچنے کی آزادی ہے تو مجھے بس اتنا پتہ ہونا چاہیے کہ میں وہ سوال نہ اُٹھاؤں جس کے لئے میرے پاس ڈیٹا پورا نہیں ہے۔۔۔اور اگر میں نے سوال اُٹھا لیا ہے تو اتنا صبر کروں کہ مکمل ڈیٹا حاصل ہوجائے۔
  • میرے ذہن میں خدا کا سوال ہمیشہ سے رہا ۔لیکن میں صبر سے وہ تمام ڈیٹا جمع کرتا رہا ؛ جو خدا کے بارے میں لازم اور ضروری تھا ۔میری ساٹھ سے اوپر عمر ہے ۔۔۔آخر کارمیں نے وہ دلیل پا لی ؛ جو آج تک مجھ سے نہیں. جو آج تک مجھ سے نہیں ٹوٹی ۔۔۔مجھ سے رد نہیں ہو پائی۔۔۔اللہ کو پانے کے لیے جو میں نے دلائل کا طریق کار وضع کیا ہے وہ آج تک کسی فلاسفر سے رد نہ ہو سکا ؛ نہ کسی عملی مثال سے ٹوٹا ۔۔۔اپنے پہلے لیکچر میں ؛میں نے اس دلیل کا صرف نقشہ اور خاکہ پیش کیا ہے ۔۔۔اس کی بنیاد حقائق پر ہے ؛ تصور پر نہیں ۔۔۔میری دلیل کی بنیاد فلسفے اور کسی انکوائری سے نہیں مل سکتی کہ
    “Allah is the Top Priority
  • اس کی بنیاد صرف ایک اصول پر قائم ہے اور چار سوالات ہیں۔۔۔ایک تو مجھے اپنے بارے میں سوال کرنا ہے کہ میں آزاد ہوں یا غلام ۔۔۔مجھے یہ طے کرنا ہے کہ اللہ ہے یا نہیں ہے ۔۔۔۔میری آزادی یا غلامی میں صرف اللہ حائل ہے ؛ اگر اللہ حائل ہے تو انسانی آزادی کے چیمپئن کے طور پر اللہ مجھے پسند ہو گا یا نہیں ۔۔۔؟
    صاف ظاہر ہے کہ “نہیں” ہو گا۔۔۔سو جب آپ اللہ پر گفتگو اور بحث کرنے چلتے ہیں تو یہ بنیادی عنصر ہے کہ خدا آپ کی آزادی کا سب سے بڑا حریف ہے۔۔۔۔اُس کو نہ ماننا ؛ عین فطرت ہے اور ماننا مشکل۔۔۔۔۔اس لئے یورپ اُس کو نہ ماننے میں آسانی سمجھتا ہے ۔۔۔اُن کی آزادی کے نظریات کا سب سے بڑا حریف مذہب ہے ؛ اور مذہب کی بنیاد پر کھڑا ہوا اللہ ہے ۔۔۔مگر ان بے وقوفوں نے ایک سوال حل نہیں کیا کہ اللہ ہے کہ نہیں ۔۔۔۔؟
  • دوسرا سوال جس کا ماننا ہمیں تمام تر فلسفوں میں کرنا پڑتا ہے ؛ یہی ہے کہ اللہ ہے کہ نہیں ؛ بقول برٹرینڈ رسل ۔۔۔۔۔ مگر مسلمانوں کے پاس ڈیٹا ہے ۔۔۔یہ اُن کی حماقت ہے کہ وہ ڈیٹا نہیں جانتے ؛مگر جس شخص کے پاس پورے 365 صفحے کی کتاب ہو؛ اور دعوی کر رہی ہو کہ میں اللہ کا ڈیٹا ہوں ۔۔۔شاید آپ نے قرآن حکیم کو اس حیرت سے نہ دیکھا ہو گا ؛ جوغیر مرئی قوت زمین و آسمان کے ادراک سے بالاتر ہے ۔۔۔اُس کے الفاظ 365 صفحات کی کتاب میں درج ہیں ؛ مرقوم ہیں ۔۔۔اور اسکی ایک آیت کو چیلنج کر دینے سے ہمارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔
  • آپ کی فکر کے لیے میں ایک اور تجویز پیش کروں ۔۔۔۔کہ میں ہزار جھوٹ بول کر بھی انسان رہ سکتا ہوں ؛ لیکن خدا ایک غلطی کر کے خدا نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔چنانچہ آپ قرآن میں ایک غلطی کی نشاندہی کریں اور آپ آزاد ہیں مگر آپ ایسا نہیں کر پاتے۔۔۔۔تو پھر آپ کو خدا کی ذات پر ایمان لانا ہو گا۔۔۔۔

پسِ حجاب
( صفحہ نمبر 43-41)

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں