ممبئی(پی این آئی)عدالت نے بیوی کو بھوت یا بدروح کہنے کی اجازت دے دی۔۔۔بھارتی عدالت نے حال ہی میں ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ بیوی کو بھوت یا بد روح کہنا ظلم کے مترادف نہیں ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بوکارو کے رہائشی سہدیو گپتا اور اس کے بیٹے نریش کمار گپتا کی نظرثانی کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پٹنہ ہائی کورٹ کے جسٹس بی بیک چوہدری نے کہا کہ ازدواجی تعلقات میں خاص طور پر ناکام شادیوں کے معاملات میں، میاں بیوی کے درمیان باہمی زبانی بدسلوکی کے واقعات عام ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی لڑائی جھگڑوں میں بیوی کو بھوت یا بد روح کہنا ظلم کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔اس سے قبل 1994 میں نریش کمار گپتا کی بیوی جیوتی کے والد کنہیا لال نے اپنے داماد اور بیٹی کے سسر کے خلاف جہیز کی مانگ اور بیٹی پر ذہنی و جسمانی تشدد کا مقدمہ درج کیا تھا۔انہوں نے اپنے مقدمے کی رپورٹ میں درج کیا تھا کہ میری بیٹی جیوتی کی شادی داماد نریش کمار گپتا سے یکم مارچ 1993 کو ہوئی اور گزشتہ ایک سال سے اس کا شوہر اور اس کا باپ سہدیو گپتا جہیز نہ دینے پر بیٹی کو ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے مجسٹریل کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج نالندہ نے سہدیو گپتا اور اس کے بیٹے نریش کمار گپتا کو سزا کا حکم جاری کیا تھا۔تاہم اب پٹنہ ہائی کورٹ کے جسٹس بی بیک چوہدری نے ناکافی ثبوت اور طبی دستاویزات کے باعث شوہر کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔ان کا کہنا ہے کہ شکایت کنندہ تشدد کے الزامات کو ثابت کرنے سے قاصر ہے اور نہ ہی اس کے کوئی طبی دستاویزات موجود ہیں اس لیے نریش کمار گپتا کی سزا کو منسوخ کر دیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے شکایت کنندہ کے وکیل کی اس درخواست کو بھی مسترد کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ 21ویں صدی کے اس معاشرے میں مرد کا بیوی کو ’بھوت‘ یا ’بد روح‘ کہہ کر مخاطب کرنا ذہنی اذیت کے مترادف ہے۔بھارتی عدالت کا کہنا ہے کہ عام طور پر ناکام ازدواجی تعلقات کی صورت میں اور اس کیس کے ریکارڈز کی روشنی میں میاں بیوی کے لڑائی جھگڑوں کے دوران دونوں ایک دوسرے کے لیے نامناسب زبان استعمال کرتے ہوئے بدسلوکی کرتے ہیں تاہم ایسے تمام الزامات ظلم کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں