اسلام آباد(پی این آئی)برف کی دنیا میں ہر جگہ ہی سفید رنگ نظر آتا ہے تو وہاں سرخ رنگ کو دیکھنے کی توقع نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ مگر 1911 میں انٹار کٹیکا میں ایک برطانوی مہم کے دوران محققین ایک گلیشیئر سے ‘خون’ کو بہہ کر برف سے ڈھکی ایک جھیل میں جاتے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ اسے ماہرین نے بلڈ فالز کا نام دیا جو انٹار کٹیکا کے ٹیلر گلیشیئر میں واقع ہے اور ایک صدی سے زائد عرصے تک اس سے خون جیسے رنگ کے پانی کا بہنا سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا رہا۔
متعدد تحقیقی رپورٹس میں بلڈ فالز سے خون جیسے پانی کے بہاؤ کے بارے میں مختلف خیالات پیش کیے گئے۔ مگر اب ایک نئی تحقیق میں اس معمے کا ممکنہ جواب سامنے آگیا ہے۔ امریکا کی جونز ہوپکنز یونیورسٹی کے سائنسدان کین لیوی کی تحقیق کے دوران متعدد اینالیٹیکل آلات کو استعمال کیا گیا جس سے انہیں اس معمے کی وضاحت کرنے میں مدد ملی۔ خیال رہے کہ ٹیلر گلیشیئر میں برف سے سیکڑوں میٹر نیچے قدیم جرثومے موجود ہیں جو لاکھوں سال سے وہاں ارتقائی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ کین لیوی نے بتایا کہ ہم نے مائیکرو اسکوپ کی تصاویر میں جرثوموں کے ننھے nanospheres کو دیکھا جو آئرن سے بھرپور تھے۔ جرثوموں کے یہ ننھے ذرات ٹیلر گلیشیئر کے پگھلنے والے پانی میں وافر مقدار میں تھے۔ آئرن کے ساتھ ساتھ ان میں سیلیکون، کیلشیئم، المونیم اور سوڈیم جیسے منرلز بھی موجود تھے اور اسی وجہ سے بلڈ فالز کے پانی کی رنگت اس وقت خون جیسی سرخ ہو جاتی ہے جب زمین کی تہہ سے طویل عرصے بعد نکلنے پر ان ذرات کا سامنا آکسیجن، سورج کی روشنی اور گرمائش سے ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ایک منرل میں ایٹمز ایک مخصوص کرسٹلائن ساخت میں منظم ہوتے ہیں، مگر nanospheres میں کرسٹلائن نہیں ہوتے تو اس لیے ماضی میں سائنسدان انہیں شناخت نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ بلڈ فال کی خون جیسی رنگت کا راز یہی nanospheres ہیں اور ان کی دریافت سے دیگر سیاروں میں چھپی زندگی کو دریافت کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق مریخ میں کام کرنے والے روور کے پاس ایسے آلات نہیں جو کسی سیارے کی برفانی سطح کی تہہ میں موجود زندگی کو دریافت کر سکیں۔ درحقیقت ان آلات کو بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے اور انہیں انٹار کٹیکا نہیں لے جایا گیا تھا بلکہ وہاں سے نمونے حاصل کرکے لیبارٹری میں بھیجے گئے تھے۔ محققین نے بتایا کہ اگر مریخ پر موجود روور کو ابھی انٹار کٹیکا لے جایا جائے تو وہ جرثوموں کے ننھے ذرات کو تلاش نہیں کرسکے گا۔ اس تحقیق کے نتائج آسٹرونومی اینڈ اسپیس سائنس میں شائع ہوئے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں