مسجد کا خیال ذہن میں آتے ہی نماز کا خیال ذہن میں آتا ہے اور نماز کا خیال ذہن میں آتے ہی مسلمان کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ مسجد مسلمانوں کی زندگی کی وہ اہم ترین جگہ ہے جہاں پر وہ دن کے پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں سے ملتے ہیں۔ لیکن آج ہم آپ کو ہندوستان کے علاقے بہار میں موجود ایک ایسی مسجد کے بارے میں بتائيں گے جہاں نماز ادا کرنے کے لیے ایک بھی مسلمان موجود نہیں ہے-
ہندوستان میں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ صدیوں سے رہتے آئے ہیں اکثر اس ملک میں ہندو مسلم تنازعات کی خبریں نظروں سے گزرتی رہتی ہیں لیکن صدیوں ساتھ رہنے کے سبب ان کے درمیان بعض جگہوں پر مثالی محبت بھی موجود ہوتی ہے-
Nalanda: Hindu residents of Mari village take care of a mosque & play azaan with the help of pen-drive; say, "It's a very old mosque. There are no Muslim residents here now. So Hindus take care of the mosque. After a wedding, newly-weds come here first to take blessings". #Bihar pic.twitter.com/xKXBuAST2G
— ANI (@ANI) August 29, 2019
ایسی ہی ایک مثال بھارت کے علاقے بہار کے مادھی نامی گاؤں میں موجود دو سو سال سے قائم مسجد ہے۔ علاقے کے لوگوں کے مطابق ابتدا میں اس گاؤں میں کافی تعداد میں مسلمان بھی رہتے تھے جنہوں نے اس مسجد کو تعمیر کیا تھا اور یہاں باقاعدگی سے نماز بھی ادا کرتے تھے-
مگر وقت کے ساتھ ساتھ مسلمان اس چھوٹے سے گاؤں کو چھوڑ کر ترقی کے لیے دوسری جگہوں پر منتقل ہوتے گئے- یہاں تک کہ اس علاقے میں ایک بھی مسلمان نہیں بچا جو اس مسجد کی دیکھ بھال کر سکے مگر اس وقت یہاں کی ہندو آبادی نے اس مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی-
باقاعدگی سے اذان کا اہتمام
اگرچہ اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے نمازی تو موجود نہیں ہیں لیکن یہاں سے اب بھی اذان کی آواز بلند ہوتی ہے- اس کے لیے یہاں کی ہندو آبادی نے مسجد کے اندر ریکارڈڈ اذان کو چلانے کا انتظام کر رکھا ہے جہاں سے صبح کے آغاز میں باقاعدہ اذان کی آواز بلند ہوتی ہے-
شادی شدہ جوڑے سب سے پہلے مسجد آتے ہیں
یہاں کی ہندو آبادی کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ مسجد ایک بابرکت جگہ ہے اس وجہ سے اس گاؤں میں جب بھی کسی کی شادی ہوتی ہے تو نوبیاہتا جوڑا سب سے پہلے مسجد آتا ہے تاکہ یہاں کی برکات سمیٹ سکے-
مسجد کی صفائی اور دیکھ بھال
مسجد کی باقاعدگی سے صفائی اور دیکھ بھال کرنے کے لیے گاؤں والوں نے ذمہ داریاں تقسیم کر رکھی ہیں اور ہر فرد اس میں کسی نہ کسی طرح سے اپنا حصہ شامل کرتا ہے اور باقاعدگی سے جھاڑو دینے سے لے کر اس کے رنگ و روغن کا خیال سب رکھا جاتا ہے۔ تاہم گاؤں والوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ دو سو سال قبل تعمیر کی جانے والی یہ مسجد کس نے بنائی تھی ۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں