نئی دہلی (پی این آئی) مسلم معاشرے میں نکاح، امامت، جنازہ، عدالتیں، یہ سب ذمہ داریاں مردوں کی سمجھی جاتی ہیں لیکن کبھی کبھی کہیں کہیں سے مردوں کی برابری کرنے کی دعویدار خواتین کی طرف سے ان زمہ داریوں میں شمولیت کے حوالے سے آواز اٹھتی ہے۔ تازہ ترین مثال میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ایک خاتون نکاح خواں نے نکاح پڑھا کر اس حوالے سے پہلی مثال قائم کر دی۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارت کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کی رہائش گاہ پر ان کے پڑنواسے کا نکاح بھارتی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف سماجی کارکن اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے پڑھایا۔
دلہا جبران ریحان رحمٰن اور دلہن ارسلا علی کا نکاح جمعہ کے روز منعقد کیا گیا جس میں قریبی دوستوں اور اہل خانہ نے شرکت کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس نکاح کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں روایتی طور پر کسی مرد قاضی نے نکاح نہیں پڑھایا بلکہ ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے قاضی کی حیثیت سے خطبہ نکاح پڑھا اور گواہوں کی موجودگی میں دلہن دلہا سے ایجاب و قبول کروایا۔خاتون نکاح خواں کا کہنا ہے ایک خاتون ’قاضی‘ سے نکاح پڑھوانے کا خیال اصل میں دلہن کو آیا تھا جس خیال کا دولہے نے خیر مقدم کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرے میں خاتون قاضی کا کوئی تصور نہیں ہے اس لیے ہم ایک نئی شروعات کرنا چاہتے ہیں اور جب ہم برابری کی بات کرتے ہیں تو پھر خاتون قاضی کیوں نہیں ہو سکتی؟
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں