اسلام آ باد (آئی این پی ) سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر بیٹے پیدا کرنے کا عالمی رجحان اسی طرح جاری رہا تو اگلے دس سال میں 47 لاکھ لڑکیوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی اسقاطِ حمل کے ذریعے قتل کردیا جائے گا۔ ریسرچ جرنل بی ایم جے گلوبل ہیلتھ کے تازہ شمارے میں عالمی ماہرین کے پینل کی شائع شدہ رپورٹ کے مطابق یہ نتیجہ 204 ممالک میں پیدا ہونے والے 3 ارب 26 کروڑ بچوں کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد اخذ کیا گیا ہے۔ قبل ازیں ماہرین کے اسی پینل نے 1970 سے 2017 تک دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش سے متعلق اعدادوشمار کا تجزیہ کرکے انکشاف کیا تھا کہ اس دوران 4 کروڑ 50 لاکھ لڑکیاں کم پیدا ہوئیں جبکہ لڑکیوں کی پیدائش میں کمی کا یہ رجحان چین اور ہندوستان میں سب سے نمایاں رہا۔ نئے مطالعے میں اسی تحقیق کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ایک بار پھر لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدائش سے متعلق اعدادوشمار کا جائزہ لے کر آئندہ دس سال سے اکیسویں صدی کے اختتام تک متوقع رجحانات کی پیش گوئی بھی کی ہے۔ اس تجزیئے سے ثابت ہوا ہے کہ تمام سرکاری اور سماجی کوششوں کے باوجود، لڑکیوں کو پیدا ہونے سے روکنے کا رجحان اپنی جگہ موجود ہے۔ یہ کیفیت چین اور ہندوستان سمیت 12 ممالک میں سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس رجحان کا تسلسل 2030 تک پیدا ہونے والی لڑکیوں کی تعداد میں 47 لاکھ کمی کا باعث بنے گا؛ جبکہ 2100 تک یہ کمی 2 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ شماریاتی طور پر کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا میں مردوں اور عورتوں کی تعداد برابر ہونی چاہیے۔ تاہم اگر کسی ملک میں ہر 100 لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی تعداد 107 تک بھی ہو تو اس فرق کو قدرتی سمجھا جاتا۔ لیکن اگر یہ فرق 107 سے بڑھ جائے تو اسے انسانی مداخلت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلا بھارت اور چین، دونوں ممالک میں ہر 100 لڑکیوں کے مقابلے میں 111 لڑکیاں پیدا ہورہی ہیں جو انسانی مداخلت کا واضح ثبوت ہے۔ پاکستان میں یہ شرح 100 لڑکیوں کی نسبت 105 لڑکوں کی ہے۔۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں