107 سال قبل دنیا کی بحری جہازوں کی تاریخ کا ایک مشہور ترین اور بڑا حادثہ اس وقت پیش آیا جب 15 اپریل 1912 کو رات کے 2 بج کر 20 منٹ پر ٹائٹینک نامی جہاز ایک برفانی تودے یا آئس برگ سے ٹکرا کر نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل کے قریب ڈوب گیا۔اس بحری جہاز کو اس وقت کا پرتعیش ترین اور محفوظ ترین جہاز بلکہ کبھی نہ ڈوبنے والا جہاز قرار دیا گیا تھا مگر اس کے ڈوبنے سے ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔مزید پڑھیں : قریب المرگ افراد کو کن احساسات کا تجربہ ہوتا ہے؟یہ وہ معلومات ہے جو بیشتر افراد کو معلوم ہے مگر کیا آپ کو یہ پتا ہے کہ ٹائٹینک کے ملبے کو کب اٹلانٹک کی گہرائیوں میں ڈھونڈا گیا تھا؟ہوسکتا ہے کہ یقین نہ آئے مگر دنیا کے مشہور ترین حادثے کے باوجود اس بحری جہاز کا ملبہ ڈھونڈنے میں دہائیوں لگ گئے تھے بلکہ ایک وقت تو ایسا بھی تھا جب خیال کیا جارہا تھا کہ اسے کبھی دریافت نہیں کیا جاسکے گا۔درحقیقت ٹائٹینک کو دریافت کرنے کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کوئی سائنسی کوشش نہیں بلکہ ایک خفیہ امریکی آپریشن کے نتیجے میں دریافت ہوا۔جی ہاں سمندر کی گہرائی میں ڈوب jانے والی 2 جوہری آبدوزوں کو دریافت کرنے کا خفیہ مشن ٹائٹینک تک پہنچنے کا باعث بنا۔اور اس مشہور زمانہ بحری جہاز کو ڈوبنے کے 73 سال سے زائد عرصے بعد 1985 میں امریکی نیوی کے عہدیدار اور بحری سائنسدان رابرٹ بیلارڈ کی سربراہی میں ایک ٹیم نے ڈھونڈا تھا۔1912 میں جہاز کے ڈوبنے کے بعد سے لوگ اسے تلاش کررہے تھے اور اپنے پیاروں کی لاشوں یا جہاز میں موجود اشیا تک پہنچنے کے لیے لوگوں نے ہر ممکن کوشش کی۔الیکٹرومیگنیٹس سے لے کر نائلون بیلونز کا استعمال کیا گیا مگر سب کو ایک ہی مسئلے کا سامنا ہوا اور وہ یہ تھا کہ کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ جہاز کہاں ہے۔کہا جاتا ہے کہ جس مقام پر ٹائٹینک برفانی تودے سے ٹکرایا تھا اور مدد کی کال کی تھی، اس لوکیشن سے وہ کھسکتا ہوا میلوں دور نکل گیا تھا اور مہم جوؤں کو سیکڑوں میل کو کھنگالنا تھا۔ٹائٹینک کی بحری قبر کی تلاش کے لیے متعدد مشنز روانہ ہوئے جن میں سے ایک 1977 میں رابرٹ بیلارڈ کی قیادت میں بھیجے جانے والا مشن بھی تھا مگر سب کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔رابرٹ بیلارڈ اس وقت امریکی نیوی کے کمانڈرم نیشنل جیوگرافک اور ووڈ ہول اوشین گرافک انسٹیٹوشن کے سائنسدان تھے اور ٹائٹینک کو ڈھونڈنا ان کا خواب تھا۔مگر ایک بار مہم کی ناکامی کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ان کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا اور وہ 1980 کی دہائی کے آغاز سے ہی دوسری مہم کے لیے کوشش کررہے تھے۔رابرٹ بیلارڈ نے بغیر انسانوں کے کام کرنے والی کیمرا سلیڈ کو تیار کیا تھا جس کو سمندر کی سطح پر موجود کسی بھی بحری جہاز سے منسلک کرکے سمندر کی گہرائی میں 20 ہزار فٹ تک بھیجا جاسکتا تھا۔وہ اس کی مدد سے ٹائٹینک کو تلاش کرنا چاہتے تھے مگر امریکی بحریہ اس ٹیکنالوجی سے یو ایس ایس اسکارپین اور تھریشر نامی 2 جوہری آبدوزوں کو تلاش کرنے میں دلچسپی تھی جو 1960 کی دہائی میں اٹلانٹک کی گہرائی میں کھو گئی تھیں۔اس طرح دونوں فریقین کے درمیان سمجھوتہ ہوا کہ اگر رابرٹ کامیابی سے دونوں آبدوزوں کو ڈھونڈا لیا تو وہ مہم کے مختص بچے ہوئے وقت کے دوران ٹائٹینک کی تلاش کا کام کرسکیں گے۔چونکہ اس وقت امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی تو اس آپریشن کو خفیہ رکھا گیا بلکہ دنیا کے ساتھ اسے ٹائٹینک کی تلاش کے مشن کے طور پر پیش کیا گیا، حالانکہ اصل مشن آبدوزوں کی تلاش تھا۔رابرٹ بیلارڈ کو امریکی نیوی کے کمانڈر کی بجائے دنیا کے سامنے اوشن گرافر کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور اس مشن کا راز 2000 کی دہائی میں خفیہ فوجی دستاویزات عام ہونے پر سامنے آیا۔یہ دلچسپ داستان بھی جانیں : وہ مجرم جو حقیقی معنوں میں ہوا میں غائب ہوکر اب تک معمہ بنا ہوا ہے۔رابرٹ بیلارڈ نے 1984 کے موسم گرما میں تھریشر نامی آبدوز کی تلاش کا شروع کیا اور اگلے سال ان کی ٹیم ایک بار پھر اٹلانٹک میں اسکارپین کے ملبے کو ڈھونڈنے کے لیے اکٹھی ہوئی۔رابرٹ بیلارڈ کو علم تھا کہ نیوی کے مشن کے باعث ان کے پاس ٹائٹینک کو تلاش کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوگا، تو اس لیے انہوں نے فرنچ ریسرچ انسٹیٹوٹ آف ایکسپلیشن آف دی سی سے شراکت داری کی۔جولائی 1985 کو فرنچ تحقیقی جہاز نے اس علاقے کو کھنگالنا شروع کیا جہاں مانا جارہا تھا کہ ٹائٹینک غرق ہوا۔اس مشن کے لیے سائیڈ اسکین سونر سسٹم جہاز سے منسلک تھا جس کا مقصد سمندر کی تہہ میں موجود بڑے دھاتی اشیا کو تلاش کرنا تھا۔مگر 5 ہفتوں کی تلاش کے باوجود مشن کے ہاتھ کچھ نہیں لگا اور یہ جدید سونر سسٹم بھی کوئی خاص سراغ فراہم کرنے میں ناکام رہا۔اس کے بعد ٹائٹینک کی تلاش کا ذمہ رابرٹ بیلارڈ اور ان کے عملے کے پاس چلا گیا جنہوں نے اسکارپین کا سروے مکمل کرلیا تھا۔مگر رابرٹ بیلارڈ کے پاس ٹائٹینک کی تلاش کے لیے محض 12 دن باقی بچے تھے مگر ان کے ذہن میں تلاش کے لیے ایک نئی تیکنیک موجود تھی۔امریکی آبدوزوں کی فوٹوگرافنگ کے دوران انہوں نے دریافت کیا تھا کہ سمندری کرنٹ تہہ میں گرنے کے دوران جہازوں کے ملبے کے معمولی ذرات کو ساتھ چلتا ہے، جس سے ملبے کی ایک طویل چین بن جاتی ہے۔اس بات کو ذہن میں رکھ انہوں نے ٹائٹینک کے ڈھانچے کی جگہ اپنی ٹیکنالوجی سے تہہ میں ملبے کی اس لمبی لکیر کو جانچنا تھا، ایک بار وہ لکیر مل جاتی تو جہاز کوو ڈھونڈا بھی آسان ہوجاتا۔اس نئے طریقہ کار سے سرچ ایریا کو بڑھانے کا موقع ملا اور ان کی ٹیکنالوجی پر مبنی ڈیوائس آرگو کو سمندری تہہ میں آگے بڑھا کر آن بورڈ کیمروں سے لائیو ویڈیو فیڈ کو مانیٹر کیا جاتا۔7 افراد اس ڈیٹا کو دیکھ رہے تھے اور 24 گھنٹے یہ کام کیا گیا۔یہ طریقہ کار کام کرگیا اور ایک ہفتے کی تلاش کے بعد یکم ستمبر 1985 کو رات گئے جب رابرٹ بیلارڈ بستر پر لیٹے ہوئے سوچ رہے تھے کہ چند ن بعد انہیں اپنے خواب سے دستبردار ہونا پڑے گا۔اس وقت ان کے جہاز کا باورچی آیا اور اس نے بتایا کہ آن ڈیوٹی ٹیم کی جانب سے انہیں بلایا جارہا ہے۔وہاں لائیو ویڈیو فیڈ میں ایک دھاتی چیز نظر آرہی تھی جو کہ ٹائٹینک کا ایک بوائلر تھا، جسے دیکھ کر عملے ممیں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ جشن منانے کے لیے تیار ہوگئے۔مگر اس وقت رابرٹ بیلارڈ کو احساس ہوا کہ رات کے 2 بج کر 20 منٹ ہوئے یعنی وہی وقت جب ٹائٹینک ڈوبا تھا اور اپنے ساتھ ڈیڑھ ہزار سے زیادہ افراد کی موت کا باعث بنا۔رابرٹ بیلارڈ کے مطابق ‘اچانک ہمیں احساس ہوا کہ ہمیں کسی کی قبر پر رقص نہیں کرنا چاہیے۔انہوں نے بعد میں ایک تحریر میں لکھا ‘ہمیں اس وقت ملے جلے جذبات کا سامنا ہوا، ایک یہ احساس تھا کہ ہم کامیاب رہے اور جہاز کو ڈھونڈ لیا، مگر اس کے ساتھ یہ خوف کا احساس بھی تھا۔ میں نے ٹائٹینک کو ناک کے بل ڈوبتے دیکھ رہا تھا جس کے ارگرد لائف بوٹس کے سائے اور لوگوں کی چیخ و پکار نظر آرہی تھی’۔انہوں نے بتایا ‘جہسا عرصے سے خیال کیا جارہا تھا ٹائٹیک ڈوبتے ہوئے 2 حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا، اس کا اگلا حصہ حیران کن طور پر ٹھیک ٹھاک تھا جبکہ پیچھے کے حصے کو زیادہ نقصان پہنچا تھا وہ 400 میٹر دور تھا’۔اس ٹیم نے آرگو اور انگس کی مدد سے ٹائٹینک کی تصاویر لیں، جس میں وہ حصہ بھی تھا جہاں سے تودے کو عملے نے پہلی بار دیکھا تھا۔متعدد حصے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے جبکہ ٹوٹے ہوئے برتن، فرنیچر کے ٹکڑے اور متعدد اشیا نظر آرہے ےھے جبکہ سمندری مردار خور انسانی باقیات کو ہضم کرچکے تھے، ان کے بس چمڑے کے جوتے نشانی کے طور پر نظر آرہے تھے۔ٹائٹینک کی دریافت کے 4 دن بعد طوفانی موسم کے باعث تحقیقی ٹیم کو وہاں سے جانا پڑا اور درجنوں سائنسدانوں نے بعد میں اس جگہ کا جانچ پڑتال کی۔رابرٹ بیلارڈ بھی 1986 کے موسم گرما میں اس جگہ پر گئے اور اس بار انسان بردار آبدوز کے ذریعے وہاں پہنچ کر جانچ پڑتال کی۔رابرٹ بیلارڈ اس مہم کے سرگرم رکن ہیں جو ٹائٹینک سے نودارت کو نکالنے کے خالف ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ جہاز اب سمندر کی گہرائی میں 13 ہزار فٹ نیچے موجود ہے جہاں زندگی موجود نہیں، وہ ایک خاموش اور پرسکون مام ہے، اور وہ ایسی مناسب جگہ ہے جو سمندروں کے ایک بڑے سانحے کے آرام کے لیے موزوں ہے، جس کو وہاں ہمیشہ رہنا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں