لندن (این این آئی )برطانیہ کے ٹاور آف لندن کا ایک اور کوا غائب ہوگیا ہے جس کے بعد بدشگونی کی افواہیں پھیلنے لگی ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانیہ کی تاریخی عمارت ٹاور آف لندن سے ایک اور کوا غائب ہوگیا جس کے بعد طرح طرح کی باتیں سامنے آنے لگی ہیں۔شاہی خاندان کی روایت یا توہم پرستی
کے مطابق ٹاور آف لندن میں کم از کم 6 سے 7 جنگلی کوے ہر وقت موجود ہونے چاہیئیں تاہم کوے گم ہوجانے یا اڑجانے کی صورت میں تاج برطانیہ کو ٹوٹنے کا خطرہ رہے گا۔اب ایسی خبر سامنے آئی ہے کہ ٹاور آف لندن میں ایک کوا غائب ہوگیا ہے ۔ ٹاور کے ماسٹر کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک کوا غائب ہوگیا ہے اور اس کے مرجانے کا امکان زیادہ ہے۔ماسٹر کے مطابق اگر کوے ٹاور کو چھوڑ دیں گے تو برطانوی تخت کو نقصان پہنچے گا۔ٹاور آف لندن میں جنگلی کوے رکھنے کی روایت 17 ویں صدی سے برطانوی بادشاہ چارلس دوئم کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ چارلس دوئم کوے کو قوم اور بادشاہت کا تحفظ سمجھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ پرندوں کے اڑ جانے سے سلطنت گر جائے گی۔ خیال رہے کہ اس وقت برطانیہ میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کے باعث برطانیہ جنگ عظیم سے اب تک کی سب سے مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہے۔۔۔۔پاکستان کے ڈاکٹروں کا کارنامہ، ایک دوسرے سے پیوستہ نو ماہ کے جڑواں بچوں کو کامیابی سے علیحدہ کر لیا گیاکراچی (این این آئی) جناب اسرار احمد اور ان کی زوجہ کے جڑواں بچے محمد آیان اور محمد امان ، دونوں ایک دوسرے سے پیوستہ حالت میں پیدا ہوئے تھے ، 12 دسمبر 2020 کو آغا خان یونیورسٹی ہسپتالمیں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ
کرنے کی کامیاب سرجری کے بعد دو صحت مند بچوں کی طرح رہ رہے ہیں۔آیان اور امان کا تعلق ایک دوسرے سے پیوستہ جڑواں بچوں کی قسم اومفالوپیگس سے تھا، جس میں دونوں بچوں کے اجسام پیٹ پر جڑے ہوتے ہیں اور کچھ اندرونی غدود ان میں شامل ہوتے ہیں، بشمول جگر اور بعض اوقات آنتوں کے۔ جڑواں بھائیوں میں جگر کا کچھ حصہ جڑا ہوا تھا۔”یہ ہمارے لئے ایک بہت ہی چیلنجنگ سفر تھا۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال آنے سے پہلے، میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ آیان اور امان ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں۔ اس خواب نے مجھے ایک امید دلائی”، جناب اسرار احمد نے ان واقعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا، جو انہیں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال تک لائے، “میرا خاندان اور میں اس بات کے قائل تھے کہ یہ ہسپتال صرف امیروں کیلئے ہے اور یہاں ہمارے لئے علاج حاصل کرنے کا کوئی بھی امکان نہیں ہے۔ لیکن، میرے اللہ نے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کو میرے بچوں کا نجات دہندہ بنادیا۔ ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ اخراجات کیلئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کی دیکھ بھال پیشنٹ ویلفئیر پروگرام سے کی جائے گی۔ایک دوسرے سے پیوستہ جڑواں بچوں کا پیدا ہونا ، شاذونادر ہی ہونے والی ایک پیدائشی بے قاعدگی ہے جس میں 250000 پیدائشوں میں سے کوئی ایک واقعہ پیش آتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب رحم مادر میں جڑواں بچوں
کو تشکیل دینے کے لئے جنین کامیاب طور پر الگ نہیں ہوتا ۔ باوجود اس کے، اس پیوستگی کیکوئی معلوم وجہ نہیں ہے۔ اس کی تشخیص حمل کے ابتدائی دور میں کی جاسکتی ہے۔ سرجری جب کہ پیوستہ جڑواں بچوں کو علیحدہ کرنے کا واحد طریقہ ہے، یہ تمام کیسوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرجری کی پیچیدگی اور سرجری کے بعد بقا کی شرح کا انحصار بنیادی طور پر جڑے ہوئے مقامات پر اور اندرونی طور پر جڑے ہوئے غدود کی قسم اور تعداد پر ہوتا ہے۔ اس ازحد زیادہ مشکل سرجری کو سرانجام دینے کیلئے ، صحت کی دیکھ بھال کے بہت ہی باصلاحیت ماہرین کی ایک کثیر المقاصد ٹیم ، بہت ہی باریک بینی سے منصوبہ بندی کرنے اور اپنی کاوشوں کا نظم کرنے کیلئے ، ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھی۔ ان ٹیموں کے دیگر فعال شرکا کے ساتھ ساتھ، پیڈرئیٹک سرجری ، انستھیسیولوجی اور ریڈیولوجی سے اور احتیاط کے طور پر گیسٹروانٹیسٹینل سرجری اور نیوروسرجری سے تیار ڈاکٹرز، نرسیں اور ٹیکنیشیئنز شامل تھے۔ اس سرجری کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں تمام ٹیموں کو مسلسل انجام دہی کیلئے نظم و نسق کیلئیاور دونوں زندگیاں بچانے کیلئے وسائل کی دگنی مقدار کی ضرورت پیش آتی ہے۔سرجری سے قبل، پیوستگی کی حالت کو مکمل
طور پر سمجھنے کیلئے ، درکار مہارت اور وسائل کی ضروری تنظیم ثانی کے لئے ایک جدید امیجنگ اور سہ ابعادی پروٹوٹائپنگ استعمال کی گئی تھی۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے پیڈرئیٹک سرجن ڈاکٹر ظفرنذیرنے پچاس سے زائد کلینک اور انتظامی عملے کی مدد سے اس آٹھ گھنٹے طویل سرجری کے لئے کی جانے والی کوششوں کی رہنمائی کی۔ “اس ہسپتال میں اس نوعیت کی سرجری شاذونادر ہی ہوتی ہے اور یہ دوسری سرجری ہے جو کہ عمل میں آئی۔ آپریٹنگ روم کے اندر اور باہر وسائل کی ترتیب نو کے لئے غیر معمولی کوشش کی گئی۔ لیکن اس پروسیجر کے بعد، دونوں بچوں کو نئی زندگی ملنے پر ہونے والی خوشی قابل دید تھی” ، ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر ظفر نذیر نے علاج کے واقعات یاد کرتے ہوئے کیا۔انستھیسیولوجسٹس کا کردار نمایاں حیثیت کا حامل تھا کیوں کہ ان کو اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ پروسیجر کے دوران دونوں بچے غیر متحرک رہیں۔ “آیان اور امان کی سرجری سے قبل نگہداشت کسی دوسری نگہداشت کی طرح نہیں تھی۔ چونکہ وہ دھڑ کی طرف سے ایک دوسرے سے پیوستہ تھے اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے، ان کو پلٹنے کیلئے ایک مکمل شگاف کی ضرورت تھی۔ چنانچہ، ہم نے ان کو ٹیوب پر نہیں ڈالا چونکہ اس سے حرکت میں رکاوٹ پیش آسکتی تھی۔ ہم نے نس کے ذریعے دوا کا انتخاب کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ تمام تر پروسیجر کے دوران ایک پوری طرح منظم بے ہوشی جاری رہے”، واقعہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل
شمیم ، انستھیسیولوجسٹ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال نے بتایا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں