دو مزدوروں نے سونے دو ٹکڑے ڈھونڈ نکالے جن کا وزن کتنے کلو گرام ہے؟ وارے نیارے ہو گئے

کینبرا(پی این آئی)دو مزدوروں نے سونے دو ٹکڑے ڈھونڈ نکالے جن کا وزن کتنے کلو گرام ہے؟ وارے نیارے ہو گئے۔ آسٹریلیا میں دو مزدوروں نے خام سونے کے دو ٹکڑے دریافت کیے ہیں جن کی مالیت ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق برینٹ شینن اور ایتھن ویسٹ نامی ان مزدوروں کو

یہ ٹکڑے ریاست وکٹوریا میں موجود تارناگلا نامی قصبے سے ملے جہاں سونے کے ذخائر پہلے ہی موجود ہیں۔ ان کی اس کھوج کو ایک ٹی وی شو ’اوزی گولڈ ہنٹرز‘ پر دکھایا گیا جو گذشتہ جمعرات کو نشر ہوا۔ان افراد نے اس علاقے میں کھدائی کی اور میٹل ڈیٹیکٹرز (دھات کی کھوج کے لیے استعمال ہونے والے آلات) کا استعمال کیا۔ایتھن ویسٹ نے سی این این کو بتایا کہ یہ واقعی سب سے اہم کھوج میں سے ایک ہے۔ ایک ہی دن میں دو بڑے ٹکڑے حاصل کر لینا حیران کن ہے۔انھوں نے سونے کے یہ دو ٹکڑوں کی کھوج لگائی جن کا ملا کر وزن 3.5 کلو گرام ہے۔ ڈسکوری چینل، جہاں پروگرام نشر ہوا، کے مطابق وہ ایسا کچھ ہی گھنٹوں میں ویسٹ کے والد کی مدد سے کرنے میں کامیاب ہوگئے۔یہ شو برطانیہ میں بھی نشر ہوتا ہے جس میں آسٹریلیا کے دو دراز علاقوں میں جانے والی ایسی ٹیموں کا پیچھا کیا جاتا ہے جن کا مقصد سونے کی تلاش ہوتا ہے۔شینن نے آسٹریلوی ٹی وی شو سنرائز کو بتایا کہ مجھے لگا تھا کہ ہمارے پاس موقع ہوگا۔ یہ ایسی زمین تھی جہاں کسی نے کھدائی نہیں کی تھی۔ اس کا مطلب کسی نے یہاں ہاتھ نہیں لگایا تھا اور یہاں کوئی کان کنی نہیں ہوئی تھی۔‘ویسٹ کا کہنا ہے کہ سونے کی کان کنی کے چار برسوں میں انھوں نے سونے کے شاید ہزاروں ٹکڑے زمین سے اٹھائے ہیں۔ڈسکوری چینل کا کہنا ہے کہ ان سونے کے ٹکٹروں کی قیمت کے تخمینے کے برعکس ان کی قدر 30 گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔سنہ 2019 میں ایک آسٹریلوی شخص نے 1.4 کلو گرام کا گولڈ نگٹ (ٹکڑا) میٹل ڈیٹیکٹر کی مدد سے ڈھونڈ نکالا تھا جس کی قیمت کا تخمینہ 69 ہزار ڈالر لگایا گیا تھا۔آسٹریلیا میں سونے کی کان کنی 1850 کی دہائی میں شروع ہوئی اور یہ آج بھی ملک میں اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ایک مقامی ویب سائٹ کے مطابق تارناگلا نامی گاؤں وکٹوریا گولڈ رش کے دور میں قائم ہوا تھا اور یہ اپنے عہد میں امیر ترین علاقوں میں سے ایک بن گیا تھا۔ یہاں سونے کی کھوج میں اپنی قسمت آزمانے والے رہائش اختیار کر لیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں