انسانوں میں کورونا وائرس سب سے پہلے 1960 کی دہائی میں دریافت ہوا، یہ سردی کے نزلہ سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا، اس وقت کے سائنسدانوں نے اس وائرس کو ہیومن (انسانی) کرونا وائرس E229 اور OC43 کا نام دیا تھا، بعد ازاں اس وائرس کی اور دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں، جن میں سے ایک جسے کووڈ-19 کہا جاتا ہے، نے انسانی زندگی کو اس قدر متاثر کیا کہ نظامِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ کووِڈ- 19 کو عالمی وبا بھی قرار دیا گیا، کیونکہ یہ وائرس اپنی پہلے سے موجود قسموں سے زیادہ مہلک اور جان لیوا تھا، عالمی ادارۂ صحت نے بھی اُس وقت یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ بیماری عالمی سطح پر پھیل چکی ہے۔
اس وائرس کے عالمی سطح پر پھیلنے کے بعد اس کا توڑ تلاش کیا گیا، اور مسلسل جدو جہد کے بعد بلآخر اس کی ویکسین دریافت کرلی گئی، اب اس وائرس کا خطرہ کافی حد تک ٹل چکا ہے، تاہم اس وائرس کے پھیلنے کی اصل وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی، لیکن اس حوالے سے دو نظریے سامنے آتے ہیں، جن میں سے پہلا یہ ہے کہ یہ وائرس ایک چینی لیب سے نکلا ہے، تاہم ماہرین نے اب تک اسے سازشی مفروضہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کیونکہ اُس لیب سے وائرس کے متعلق کوئی شواہد دستیاب نہیں ہو پائے۔ دوسرہ نظریہ یہ ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں قدرتی طور پر منتقل ہوا ہے اور اس کے لیے کسی تجربہ گاہ یا کسی سائنسدان کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ گذشتہ برس پیش کیے جانے والے اس نظریے کو عالمی ادارہ صحت نے بھی تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی اور کہا کہ ‘یہ بہت ممکن ہے کہ کووڈ انسانوں تک کسی ایک بیچ میں پائے جانے والے جانور سے منتقل ہوا ہے۔’
اب ایک نئی خبر سامنے آئی ہے کہ چینی ماہرینِ وائرس نے چمگادڑوں میں ایک نیا کورونا وائرس دریافت کیا ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ یہ اسی انسانی ریسیپٹر کا استعمال کرتا ہے جو کووڈ-19 کے وائرس نے کیا تھا۔ اس تحقیق کی قیادت معروف چینی وائرولوجسٹ شی ژینگ لی نے کی۔ وہ ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی (ڈبلیو آئی وی) سے وابستہ ہیں۔ شی ژینگ لی اپنی چمگادڑوں پر وائرل تحقیق کے باعث “بیٹ وومن” کے نام سے مشہور ہیں۔
حالیہ تحقیق میں ایک نئے وائرس کا انکشاف ہوا ہے جو پہلے ہانگ کانگ میں جاپانی پائپسٹریل چمگادڑ میں شناخت کیے گئے HKU5 کورونا وائرس کے ایک نئے سلسلے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ وائرس مرکووائرس کے ذیلی گروہ میں شامل ہے، جس میں وہ وائرس بھی شامل ہے جو مشرق وسطیٰ کے سانس کے مرض (MERS) کا سبب بنتا ہے۔
سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ نیا وائرس انسانی خلیات کو متاثر کر سکتا ہے کیونکہ یہ اینجیوٹینسین کنورٹنگ اینزائم 2 (ACE2) سے جُڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ وہی ریسیپٹر ہے جسے سارس-کووی-2 (کووڈ-19 کا سبب بننے والا وائرس) بھی انسانی جسم میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
تحقیقی ٹیم نے اپنے مقالے میں لکھا، “ہم HKU5-CoV کے ایک منفرد سلسلے (لائنج 2) کی دریافت اور تنہائی کی اطلاع دیتے ہیں، جو نہ صرف چمگادڑ ACE2 بلکہ انسانی اور مختلف ممالیہ ACE2 سے بھی جُڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔” یہ تحقیق پیر-ریویو جریدے Cell میں شائع ہوئی۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں