کورونا کا شکار افراد 3 سال بعد کونسی مہلک بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں ؟ خوفناک انکشاف

تین سال پہلے جن لوگوں کو کورونا وائرس لاحق ہوا تھا اب ان میں فالج اور دل کی بیماریوں کے پھیلنے کا انکشاف ہوا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا وائرس میں مبتلا رہنے والوں میں دل کی بیماریوں کا تناسب زیادہ ہے اور اموات کا بھی۔

ایک جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کی تیاری میں یو کے بایوبینک میں انرولمنٹ رکھنے والے ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کے میڈیکل ریکارڈز سے مدد لی گئی ہے۔ڈھائی لاکھ افراد میں گیارہ ہزار ایسے تھے جن کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ یہ 2020 کی بات ہے۔ ان میں سے تین ہزار کو انفیکشن کے لیے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ان کے ریکارڈ کو ڈیٹا بیس میں موجود دیگر 2 لاکھ 22 ہزار کے ریکارڈز سے ملاکر دیکھا گیا۔

کووڈ میں مبتلا رہنے والے افراد میں دل کے امراض میں مبتلا ہونے اور دل کے بڑے دورے کا امکان دگنا تھا، بالخصوص بیماری کے تین سال بعد۔ جو لوگ کووڈ میں مبتلا ہونے کے بعد انفیکشن کے علاج کے لیے اسپتال میں داخل کیے گئے ان میں تو دل کے امراض میں مبتلا ہونے یا دل کے کسی بڑے دورے کا امکان اور بھی زیادہ تھا۔ اسی طور جنہیں اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت زیادہ تھی ان میں بھی دل کے دوروں کا امکان زیادہ پایا گیا۔

کورونا کی وبا کے دوران امریکا میں مئی 2020 سے اپریل 2021 تک کم و بیش 35 لاکھ افراد کو کووڈ کے علاج کے لیے اسپتالوں میں داخل کیا گیا۔ انفکیشن سے دل کے دورے کا خدشہ وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوا۔کلیو لینڈ کلینک کے ڈاکٹر اسٹینلے ہیزن کا کہنا ہے کہ کووڈ میں مبتلا رہنے والوں میں دل کے دورے کے خطرے میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہی اس تحقیق کی سب سے حیرت انگیز بات ہے۔

امریکی ریاست منیسوٹا کے شہر راچسٹر کے میو کلینک کی ماہرِ امراضِ قلب ڈاکٹر پیٹریشیا بیسٹ کہتی ہیں کہ کووڈ میں مبتلا رہنے والوں میں دل کے امراض کے خطرے کا بڑھنا عجیب دریافت ہے۔انفکیشن کی صورت میں دل کے دورے کا خطرہ بڑھتا ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ ختم بھی ہوتا جاتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ نان او بلڈ گروپ والوں (اے، بی، اے بی) میں عمومی طور پر دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ او بلڈ گروپ والے جن لوگوں کو کووڈ میں مبتلا ہونے پر اسپتال میں داخل کیا گیا ان میں دل کے امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ زیادہ پایا گیا۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں