پوری دنیا(ویب ڈیسک) اس وقت کورونا وبا کا شکار ہے۔ وبا ایک ایسی بیماری کو کہا جاتا ہے جو بیک وقت دنیا بھر میں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے۔انسانی تاریخ میں بڑی بڑی وباؤں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے منہ میں دھکیلا جیسے طاعون، چیچک وغیرہ ۔ بالآخر ان کے علاج دریافت ہوئے اور لوگوں کو ان سے تحفظ ملا۔اسی طرح اس وقت بھی کم و بیش ڈیڑھ سال سے دنیا کوکورونا کی جس وبا کا سامنا ہے، اب اس کا علاج سامنے آچکا ہے اور مختلف اقسام کی ویکسین ٹرائل کے مراحل سے گزرنے کے بعد دنیا بھر میں لوگوں کو دستیاب ہو چکی ہے۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارے ہاں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم کورونا ویکسین کے حوالے سے سلگتے ہوئے سوالات کی بھرمار ہے۔ لوگ طرح طرح کے خدشات میں مبتلا ہیں اور افواہوں کا بازار گرم ہے جس سے عام لوگوں میں ویکسین کے بارے میں بدگمانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔کورونا ویکسین کا کیا فائدہ ہے بالخصوص وبا کی صورت میں اس کا کردار کیوں بڑھ جاتا ہے؟ مختلف امراض میں مبتلا لوگوں، بزرگوں اور حاملہ خواتین کے لیے ویکسین کس قدر محفوظ ہے؟ اس کے سائیڈ ایفکٹس کیا ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ کون سی ویکسین زیادہ بہتر ہے؟ اور کیا ویکسین لگوانے کے بعد کورونا سے 100 فیصد تحفظ یقینی ہو جاتا ہے؟ یہ مختلف سوالات ہیں جن کے جوابات ماہرین نے فراہم کیے ہیں۔پروفیسر محمد رفیق کھانانی، صدر انفیکشن کنٹرول سوسائٹی پاکستان کا کہنا ہے: ’’ ویکسین کوئی نئی چیز نہیں ہے، سینکڑوں سالوں سے مختلف وباؤں کو کنٹرول کرنے میں اس کا کردار نہایت کلیدی رہا ہے۔ کون بھی انسان یادیگر جاندار جب بیمار ہوتے ہیں تو قدرت نے ان کے جسم میں ایسی صلاحیت رکھی ہے جو اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت بناتی ہے۔ یہ قوت مدافعت دوسری دفعہ بیمار ہونے کی صورت میں اس کے کام آتی ہے۔ یہ بیماری کو ہونے نہیں دیتی یا پھر اس کی شدت سے بچاتی ہے۔ یہی فلاسفی ویکسین میں کارفرما ہے کہ بیماری پیدا کرنے والے وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر کے یا تو اس وائرس کا خاتمہ کرتی ہے یا اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر یتی ہے۔ ‘‘ڈاکٹر عزیز اللہ خان ڈھلوں ، اسسٹنٹ پروفیسر متعدی امراض، انچارج کووڈ ICU، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کہتے ہیں:’’ پاکستان میں اس وقت چار سے پانچ قسم کی کورونا ویکسین دستیاب ہیں اور تحقیق کے مطابق تمام کی ویکسین ان بیماریوں میں بھی مفید ہیں ۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ان امراض میں مبتلا لوگوں کے لیے ویکسین کا لگوانا زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ اگر ان امراض میں مبتلا لوگوں کو کورونا انفیکشن ہوگا تو وہ زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہو گا اور ایسے مریضوں کو آکسیجن کی کمی درپیش ہو سکتی ہے یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘پروفیسر ندیم رضوی، سابق سربراہ امراض سینہ جناح ہسپتال کا کہنا تھا: ’’حمل ایک نہایت نازک مرحلہ ہوتا ہے جس میں ہم مریضوں کو بہت زیاہ احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں اور بعض اوقات توخواتین کو ڈسپرین دیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں لیکن یہ ویکسین اس قدر محفوظ ہیں کہ بلاجھجھک لگوائی جا سکتی ہیں۔ایسے کسی بھی خیال کو دماغ میں جگہ نہیں دینی چاہیے کہ ویکسین لگوانے سے حاملہ خواتین کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔ تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دوران حمل اور بریسٹ فیڈنگ میں ان ویکسین کا کوئی منفی ردعمل نہیں ہے۔‘‘پروفیسر سہیل اختر، سربراہ شعبہ پلمانالوجی انڈس ہسپتال، سابق صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں: ’’اب تک کی تحقیق اور رپورٹس میں ویکسین سے شدید نوعیت کے مضر اثرات نہ صرف ہماری ہاں بلکہ پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں دیکھے گئے۔جو عام شکایات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ویکسین کا انجکشن لگنے سے ہلکی سوجن ہو سکتی ہے، بعض کو ہلکا بخار، جسم یا سر میں ہلکا درد ہو سکتا ہے اور یہ بھی 24گھنٹے کے اندر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایسے مضر اثرات نہیں ہیں جن کی وجہ سے آپ ویکسین ہی سے انکار کر دیں۔ دوسری جانب یہ وہ بیماری ہے جس نے اب تک دنیا میں 37لاکھ لوگوں کی جان لے لی ہے۔‘‘پروفیسر سہیل اختر کہتے ہیں: ’’ اسٹرازینیکا ویکسین لگوانے کے بعد بعض لوگوں میں کلاٹنگ کی شکایات سامنے آئیں۔ یہ ویکسین سب سے زیادہ برطانیہ میں استعمال ہوئی۔ وہاں پر ہونے و الی تحقیق کے مطابق کلاٹنگ کی شکایت دس لاکھ میں سے صرف 40 لوگوں کو ہوئی۔ یہ اتنا کامن سائیڈ ایفکٹ نہیں ہے۔ تاہم اس ویکسین میں احتیاط کرنی چاہیے کہ 40سال سے کم عمر کو نہ لگائی جائے یا ایسے افراد جن میں مخ…
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں