لندن(پی این آئی)طبّی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو اگلی صدی کی ابتداء تک دنیا میں ہر سال ڈینگی اور ملیریا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 8 ارب 40 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔یہ تحقیق ’’لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن‘‘ برطانیہ میں کی گئی ہے جبکہ اس میں سویڈن اور اٹلی کے ماہرین بھی شریک تھے۔مچھروں سے کئی بیماریاں پھیلتی ہیں لیکن ان میں ملیریا اور ڈینگی سب سے زیادہ تشویش ناک ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2019 میں ملیریا سے دنیا بھر میں اندازاً 22 کروڑ 90 لاکھ افراد، جبکہ ڈینگی سے 92 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔اس تحقیق کےلیے گزشتہ 20 سال میں عالمی درجہ حرارت اور مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا۔اس تجزیئے سے معلوم ہوا کہ اس عرصے میں ملیریا سے متاثرہ افراد کی عالمی تعداد پہلے 26 کروڑ 20 لاکھ سے کم ہو کر 21 کروڑ 40 لاکھ ہوئی (2015 میں)، لیکن پھر 2019 تک دوبارہ بڑھتے ہوئے 22 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ گئی۔ڈینگی کا معاملہ اس سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ 2000 میں اس بیماری نے ساری دنیا میں 5 لاکھ سے کچھ زیادہ افراد کو متاثر کیا تھا لیکن 2019 تک یہ تعداد 52 لاکھ تک پہنچ چکی تھی؛ یعنی ڈینگی کے عالمی پھیلاؤ میں بیس سال کے دوران 20 گنا اضافہ ہوگیا۔اس اضافے کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے ماہرین نے بتایا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے زمین کا اوسط درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے جو مچھروں کی نشوونما کےلیے مفید ہے۔ نتیجتاً مچھروں کے نسل بڑھانے کے دورانیے میں بھی ڈیڑھ ماہ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر درجہ حرارت میں اضافے کو قابو نہ کیا گیا اور 2100 تک اس میں 3.7 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوگیا تو اس سے نہ صرف مچھروں کی تعداد بڑھے گی بلکہ ساری دنیا میں مچھروں کی پیدا کردہ بیماریوں میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد بھی 8 ارب 40 کروڑ کے لگ بھگ ہوسکتی ہے (کیونکہ ایک اندازے کے مطابق، 2100 تک دنیا کی آبادی 16 ارب پر پہنچ چکی ہوگی)آن لائن ریسرچ جرنل ’’دی لینسٹ پلینٹری ہیلتھ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ وہ ممالک جو دنیا کے نقشے پر شمال کی سمت واقع ہیں اور جو آج اپنے قدرے سرد موسم کی وجہ سے ملیریا اور ڈینگی وغیرہ سے بڑی حد تک محفوظ ہیں، 22ویں صدی کی ابتداء تک ان ملکوں میں بھی ان بیماریوں کی وبائی صورتِ حال خطرناک ہوگی۔ ان علاقوں میں شمالی امریکا، شمال وسطی یورپ اور شمالی ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔واضح رہے کہ زیادہ بلندی پر واقع، سرد مقامات پر پہلے ہی مچھروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا جاچکا جس سے اس خدشے کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔مذکورہ تحقیق میں زور دیا گیا ہے کہ عالمی تپش میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) قابو میں رکھنے کےلیے سنجیدہ، فوری اور نتیجہ خیز کوششوں کی شدید ضرورت ہے؛ بصورتِ دیگر بہت دیر ہوجائے گی اور دوسرے ماحولیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ ہمیں ڈینگی اور ملیریا جیسی عالمی وباؤں کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں