لندن(پی این آئی)طبی تحقیقی جریدے لینسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ 19 سے شدید متاثر ہونے والے 125 مریضوں کا معائنہ کیا گیا تو نظر آیا کہ ان کے دماغ میں کسی نوعیت کی خرابی ہوئی ہے۔ان میں سے نصف کو فالج کا حملہ ہوا تھا اور دیگر کو دماغ سے متعلق دوسری بیماریاں ہوئی تھیں۔
بی بی سی کے مطابق برطانیہ کی کیمبرج یونی ورسٹی کے 64 سالہ ڈائیرکٹر کمیونیکیشن پال مائلریا کہتے ہیں کہ فالج، ہذیانی کیفیت، اضطراب، پریشانی، تھکن، اور اس جیسی ایک طویل فہرست۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ کووڈ 19 نظام تنفس کی بیماری ہے تو دوبارہ سوچیے۔جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں، یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس مختلف نوعیت کی دماغی بیماریوں کا موجب ہے۔ایسے کئی لوگ جو اس بیماری سے متاثر ہوئے انھوں نے مجھ سے بعد میں رابطہ کیا اور بتایا کہ انھیں شدید نوعیت کا مرض نہیں ہوا تھا مگر اس کے باوجود کئی دن گزر جانے کے باوجود انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی یادداشت متاثر ہوئی ہے، وہ ہر وقت تھکن محسوس کرتے ہیں اور توجہ ایک جگہ مرکوز کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔لیکن وہ جو اس بیماری سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان کے ساتھ ہونے والے واقعات زیادہ باعث پریشانی ہیں۔اس رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک، پروفیسر ٹام سولومن نے بتای کہ ‘یہ واضح ہے کہ کورونا وائرس دماغ میں بھی مسائل پیدا کرتا ہے جبکہ ہم پہلے صرف سمجھتے تھے کہ یہ پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی اور بھی وجوہات ہوں۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یہ وائرس براہ راست دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے یا نہیں۔این ایچ این این میں کام کرانے والے دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر مائیکل زانڈی کہتے ہیں کہ ماضی میں سامنے آنے والی دو بیماریاں، سارس اور میرس دونوں کورونا وائرس کی وجہ سے ہوئی تھیں اور ہم نے ان بیماریوں کا دماغی امراض سے تعلق دیکھا تھا لیکن ہم نے ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس کا موازنہ صرف 1918 میں آنے والے ہسپانوی فلو سے کیا جا سکتا ہے۔ہمیں اس بات پر یقین کر لینے سے پہلے احتیاط سے کام لینا ہوگا کہ آیا کووڈ 19 اور ہسپانوی فلو میں کوئی مماثلت ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کے دماغ پر اثر ہوتا ہے اور اس کے طویل مدتی اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں