کراچی(پی این آئی)سندھ میں کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے اور ماہرین صحت سمیت صوبائی حکام نے والدین سے بچوں کو فوری طور پر حفاظتی ٹیکے لگوانے کی اپیل کردی ہے۔صوبائی محکمہ صحت کے مطابق سندھ کے کئی علاقوں میں خسرہ کی وبا پھوٹ
پڑی ہے جو کہ بچوں کے لئے کورونا وائرس سے زیادہ متعدی اور خطرناک بیماری ہے، اس کے ساتھ ساتھ سندھ کے کئی علاقوں خصوصاً کراچی میں ڈرگ ریزسٹنٹ ( ایکس ڈی آر) ٹائیفائیڈ، تشنج اور خناق کے کیسز میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ماہرین صحت نے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائیں تاکہ انہیں اموات اور بیماری سے بچایا جا سکے۔ورلڈ ایمیونائزیشن ویک یا عالمی ہفتئہ حفاظتی ٹیکہ جات کے موقع پر جمعہ کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے معروف ماہر امراض اطفال اور ڈائریکٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا تھا کہ سندھ خصوصاً کراچی میں کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ خسرے کی وبا بھی پھوٹ پڑی ہے اور کئی اسپتالوں میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ، تشنج، خناق سمیت دیگر بیماریوں کے کیسز آنا شروع ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی ویکسین کے لئے دنیا بھر سمیت پاکستان کے لوگ انتہائی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے لوگ اپنے بچوں کو وہ ویکسین لگوانے کے لیے تیار نہیں جو کہ اس وقت ملک میں موجود ہیں اور بغیرکسی معاوضے کے بچوں کو لگائی جا رہی ہیں۔پروفیسر جمال رضا کا کہنا تھا کہ سندھ میں اس وقت خسرے کے کیسز بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال کے ابتدائی چار مہینوں میں خسرے کے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں، اس کی بنیادی وجہ لاک ڈاؤن اور اس سے متعلقہ مسائل ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے حفاظتی ٹیکہ جات کے مراکز جائیں اور اپنے بچوں کو خسرے سمیت دیگر دس بیماریوں کی ویکسینیشن ضرور کروائیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب تک صرف چند بچے کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جو کہ جلد ہی صحت یاب ہوگئے لیکن خسرہ اور دیگر بیماریاں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بچوں کی جان لے سکتی ہیں۔حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام سندھ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر اکرم سلطان کا کہنا تھا کہ فروری اور مارچ کے مہینوں میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے کئی مستقل سینٹر بند رہے اور عملہ بھی نہ پہنچ سکا جبکہ والدین نے بھی حکومتی ہدایات پر گھروں میں رہنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے ہزاروں بچے حفاظتی ٹیکاجات لگنے سے محروم رہ گئے۔ڈاکٹر اکرم سلطان کا کہنا تھا کہ اب صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور ان کے محکمے نے حفاظتی ٹیکہ جات کے نوے فیصد سینٹرز کو بحال کردیا ہے، عملے کو تمام حفاظتی کٹس فراہم کر دی گئی ہیں اور وہ بچوں کو خسرہ سمیت دیگر بیماریوں کے حفاظتی ٹیکے لگا رہے ہیں۔ڈاکٹر اکرم سلطان کا کہنا تھا کہ خسرہ کورونا وائرس سے بھی زیادہ متعدی، خطرناک اور جان لیوا مرض ہے، انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ تمام تر حفاظتی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے گھروں سے نکل کر ان کے مستقل مراکز پر جائیں اور اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائیں تاکہ وہ بیماریوں اور اموات سے محفوظ رہ سکیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے علاقے جہاں کے لوگ لاک ڈاؤن کی سختی کی وجہ سے اپنے گھروں سے نہیں نکل پائیں گے وہاں ان کا محکمہ اپنی ٹیمیں روانہ کرے گا جو گھر گھر جاکر بچوں کو حفاظتی ٹیکاجات لگائیں گی۔دوسری جانب پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن سندھ کے جنرل سیکریٹری اور ماہر امراض اطفال پروفیسر ڈاکٹر خالد شفیع کا کہنا تھا کہ اس وقت سندھ بھر بشمول کراچی میں خسرے کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے جو کہ اتنا ہی خطرناک مرض ہے جتنا کہ کورونا وائرس ہوسکتا ہے، خوش قسمتی سے کورونا وائرس کے علاوہ دیگر خطرناک بیماریوں کی ویکسین موجود ہے جسے لگواکر بچوں کو ان خطرناک بیماریوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔پروفیسر خالد شفیع کا مزید کہنا تھا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکہ جات کے مراکز لے کے جائیں اور خسرے سمیت دیگر دس بیماریوں کے ٹیکے لگوائے تاکہ وہ دیگر بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں