نبی مکرمؐ نے فرمایا: میں کل ایک ایسے آدمی کو جھنڈا دوں گا جو خود بھی اللہ و رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور رسولؐ بھی اس سے محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں فتح دیں گے۔لوگوں نے اس حال میں رات بسر کی کہ ہر شخص کی تمنا تھی کہ اسے یہ شرف حاصل ہو، آپس میں سرگوشی کرتے رہے کہ آنحضورؐ کس کو جھنڈا دیں گے! حضرت عمرؓ کہنے لگے: میں نے صرف اسی دن امارت کی تمنا کی اس امید پر کہ میں وہ شخص ہو جاؤں جس سے اللہ اوراس کے رسولؐ محبت کرتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تولوگوں کا ایک ہجوم آنحضرتؐ کے اردگرد جمع ہو گیا، تعداد مکمل ہو گئی اور صفیں سیدھی ہو گئیں، سب گردنیں لمبی کرکے دیکھنے لگے اور تمنا و آرزو کرنے لگے کہ اچانک نبی کریمؐ کی آواز بلند ہوئی۔۔۔۔ یہ واقعہ ہے غزوہ خیبر کا جس کی فتح کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثار صحابہ کرام کے ساتھ موجود تھے، اس غزوہ کا مقصد یہودیوں کی طاقت کے گڑھ خیبر قلعہ کو فتح کرنا تھا کیونکہ اس قلعے کو مرکز بنا کر یہودی مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھا رہے تھے اور ان کو مسلسل تنگ کر رہے تھے۔ اس لیے ضرورت سمجھی گئی کہ خیبر قلعہ کی فتح کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی جائے اور ان سازشوں کا قلعہ قمع کر دیا جائے۔خیبر، مدینہ کے قریب یہودیوں کا ایک مضبوط قلعہ تھا، جس کے سامنے تمام لشکروں کے قدم اکھڑ جاتے اور شہسوار دم توڑ جاتے۔ اس قلعہ کی بلند و بالا چار دیواری تعمیر کی گئی تھی کہ اس کی بلندی تک دشمن کے تیر نہیں پہنچ سکتے تھے۔اسی چہار دیواری کے قریب نبی کریمؐ اور آپؐ کےلشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ پہلے دن حضرت ابوبکرؓ اپنی تلوار لہراتے ہوئے نکلے، آپؓ کے ہاتھ میں جھنڈا تھا اور تمام مسلمان آپؓ کے پیچھے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے اور دشمن کے ساتھ خوب لڑے۔لیکن اسی دوران آفتاب غروب گیا اور مسلمان قلعہ میں داخل ہوئے بغیر واپس لوٹ آئے۔ دوسرے دن حضرت عمرؓ نے جھنڈا اٹھایا اور دشمن کے ساتھ خوب مقابلہ کیالیکن قلعہ پھر بھی فتح نہ ہوا، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور ایک بار پھر مسلمان واپس لوٹ آئے۔ پھر نبی مکرمؐ نے فرمایا: میں کل ایک ایسے آدمی کو جھنڈا دوں گا جو خود بھی اللہ و رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور رسولؐ بھی اس سے محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں فتح دیں گے۔لوگوں نے اس حال میں رات بسر کی کہ ہر شخص کی تمنا تھی کہ اسے یہ شرف حاصل ہو، آپس میں سرگوشی کرتے رہے کہ آنحضورؐ کس کو جھنڈا دیں گے! حضرت عمرؓ کہنے لگے: میں نے صرف اسی دن امارت کی تمنا کی اس امید پر کہ میں وہ شخص ہو جاؤں جس سے اللہ اوراس کے رسولؐ محبت کرتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تولوگوں کا ایک ہجوم آنحضرتؐ کے اردگرد جمع ہو گیا، تعداد مکمل ہو گئی اور صفیں سیدھی ہو گئیں، سب گردنیں لمبی کرکے دیکھنے لگے اور تمنا و آرزو کرنے لگے کہ اچانک نبی کریمؐ کی آواز بلند ہوئی:’’علی بن ابی طالبؓ کہاں ہیں؟‘‘ حضرت علیؓ حاضر خدمت ہوئے، آشوب چشم میں مبتلا تھے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی، حضورؐ نے پوچھا: علیؓ! تجھے کیا ہوا؟حضرت علیؓ نے عرض کی کہ آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میرے قریب ہوجاؤ۔ چنانچہ حضرت علیؓ قریب ہوئے۔ نبی پاکؐ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن رکھا تو ان کو شفا ہو گئی۔ پھر آپؐ نے ان کو جھنڈا دیا اور فرمایا: ’’یہ علم لو، اور اسے لے چلو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعہ فتح دیں۔حضرت علیؓ نے عرض کیا! یا رسول اللہؐ! کیا میں ان کے ساتھ قتال کروں تاوقتیکہ وہ ہماری طرح ہو جائیں۔حضورؐ نے فرمایا کہ ’’یوں ہی چلے جاؤ، ان کے میدان میں اتر کر پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا اور ان کو بتانا کہ ان پر اللہ کا کیا حق واجب ہے، خدا کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بدرجہا بہتر ہے۔‘‘ جب حضرت علیؓ یہودیوں کے اس قلعہ کے قریب گئے تو قلعہ کی چوٹی سے ایک یہودی نے جھانکا اور پوچھا کہ تم کون ہو؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں علی بن ابی طالبؓ ہوں۔ یہودی نے کہا کہ قسم ہے اس کتاب کی جو موسیٰؑ پر نازل ہوئی تم ضرور غالب رہو گے اور پھر ایسا ہی ہوا کہ اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی اور خیبر سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ یہی قلعہ خیبر آج بھی حجاز مقدس میں قلعہ خیبر کے کھنڈرات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ خیبر کس قدر مضوط قلعہ تھا اور اس کی فتح واقعی مسلم تاریخ کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے۔۔۔۔
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں