ایک شخص رات کو اللہ کے ذکر میں مشغول تھا اور اس کی زبان پر اللہ اللہ کا ورد جاری تھا۔شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا، ” کب تک اللہ اللہ کی رٹ لگائے جائے گاادھر سے تو کوئی جواب نہیں ملتا اور تو ہے کہ مسلسل اسی کو پکارے جا رہا ہے۔ “شیطان کی یہ بات سن کر اس شخص کا دل ٹوٹ گیا۔ یہی سوچتے اور روتے روتے اسے نیند آگئی
عالم خواب میں حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے اور پوچھا: “اے نیک بخت ! تونے ذکر حق کیوں چھوڑ دیا؟”اس نےدل سے کہا۔ ” بارگاہ خداوندی سے مجھے کوئی جواب نہیں ملتا اسی لیے فکرمند ہوں کہ کہیں میرے ذکر کو رد ہی نہ کر دیا گیا ہو۔۔ “حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا: ” اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تیرے پاس جاوں اور تجھ کو بتاوں کہ”تو جو اللہ کا ذکر کرتا ہے وہی ہمارا جواب ہے، تیرے دل میں جو سوز و گداز پیدا ہوتا ہے وہ ہمارا ہی تو پیدا کیا ہوا ہے اور یہ ہمارا ہی کام ہے کہ تجھ کو ذکراللہ میں مشغول کردیا ہے۔۔ تیرے ہر “یا اللہ” کہنے میں ہماری ۱, لبیک پوشیدہ ہیں، “جان جاہل زیں دعا جز دور نیست۔۔زانکہ “یارب”گفتنش دستور نیست۔۔یعنی ایک جاہل اور غافل کو سچے سے دل سے دعا (ذکر) کی توفیق ہی نہیں ہوتی کیوں کہ “یارب” کہنا اس کی عادت ہی نہیں یہ سنتے ہی وہ شخص پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اللہ پاک سے معافی مانگنے لگا۔ !!(مثنوی مولانا روم۔۔)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں