دیکھو، وہ دیکھ رہا ہے، جماعت اسلامی کے سینئر رہنما حافظ سلمان بٹ کے انتقال پر محمد فاروق بھٹی کی تحریر

پولیس نے تھانہ پرانی انارکلی کی حوالات میں کئی نوجوان ٹھونس رکھے ہیں ۔۔۔ ضیاءالحقی مارشل لاء کے خلاف طلبہ تحریک جاری ہے ۔۔۔ رات گئے پولیس جیپ حوالات کے سامنے رکتی ہے، چادر اوڑھے ایک نیم بیدار نوجوان نیچے اترتا ہے، لگتا ہے جیسے نیند سے اٹھایا گیا ہو، حوالات میں داخل ہوتے ہی فرش پر نظر

ڈالتا ہے، ایک کونے کو چادر سے جھاڑتا ہے، اگلے ہی لمحے اس کے خراٹے ماحول کو ڈھانپ لیتے ہیں، کیا بےنیازی ہے ۔۔۔ 1981ء میں اسلامیہ کالج سول لائنز یونین کے ایک استقبالیہ میں پہلی بار اس کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔۔۔ سینکڑوں طلبہ کے ہجوم میں گِھرا ایک رعنا نوجوان ۔۔۔ ایمان سے لبریز آبشاروں جیسی گفتگو سنی، تو جسم و جاں میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا ۔۔۔ آٹو گراف لیا، تو اس نے لکھا، “دیکھو، وہ دیکھ رہا ہے” ۔۔۔ مڑ کر دیکھتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ ایسا شاہِ بلوط اب ہم میں نہیں رہا۔ آس کی شخصیت کا احاطہ آساں نہیں، جو اک بار اُس سے ملا، وہ اس کے وجود کا حصہ بن گیا۔ طلبہ، مزدور، کھلاڑی، لاہوری، جہادی، کشمیری، مربی، مقرر، مدرس، ذاکر، شاکر، قائد، کارکن اتنا ہمہ جہت اور اتنا بےنیاز کوئی ایک شخص کیسے ہو سکتا ہے، لیکن وہ تھا۔ایک زمانہ 43 ریٹی گن روڈ کا رخ کیا کرتا کہ یہ محض کوئی ایڈریس نہ تھا، مظلوموں کے ہر مرض کا امرت دھارا تھا۔ 1985ء ہو، 1988ء یا 1990ء ہو، 1993ء ہو 2002ء ہو یا 2013ء یا 2018ء ۔۔۔ پیام، پیاسی، پریم، لاجواب ہو ۔۔۔ جس مورچہ پر اس کی ڈیوٹی لگی، وہ نتائج سے بےپرواہ ہو کر ڈٹ گیا۔
جگرِ لالہ میں جس سے ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاوؑں کے دل جس سے دھل جائیں وہ طوفان

میں نے اسے نواز خان، زبیر بابر کے جنازوں پر دھاڑے مار مار روتے دیکھا ۔۔۔ میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، اسعد گیلانی، منور حسن کے قدموں میں بیٹھے دیکھا، شاہی قلعے کے علی پارک میں گولیوں کی بوچھاڑ میں دیکھا، بھاٹی تھانے میں بدمعاشوں کی پٹائی کرتے دیکھا، پانی والا تالاب میں کارکنان کی مدد کو پہنچتے دیکھا، شب بیداریوں میں زاروقطار روتے دیکھا ۔۔۔ زندگی بھر نظریہ کے ایک ہی کونٹھے سے بندھنے والے کو کبھی کوئی نہ بہلا پھسلا سکا، نہ اس نے کبھی جاہ و حشم اور چمک کی طرف پلٹ کر دیکھا ۔۔۔ پہننے اوڑھنے میں ہمیشہ سادگی رکھی، اسے پچھلی صفوں میں بھی مطمئن دیکھا، امامت پر بھی موؑدب دیکھا، اسے مرعوب کرنا ناممکن تھا ۔۔۔ ہر فرعون جانتا تھا کہ یہ موسیٰ نہ قابل خرید و فروخت ہے۔ وہ وقت کے ہرقل کے ہاں گیا بھی تو عبداللہ بن حذافہؓ کی طرح ۔۔۔ وہ ربعیؓ بن عامر جیسی شانِ بےنیازی رکھتا تھا، جو رستم کے محل میں قالینوں پر اپنے نیزے ٹیکتے داخل ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا، وہ کسی کم ظرف سے الجھتا نہیں تھا، مزاح کی بھرپور حس کا حامل تھا لیکن کسی کا مذاق نہیں اڑاتا تھا۔ خوب جانتا تھا کہ کون کیا ہے لیکن کبھی گلہ نہ کیا ۔۔۔ خواجہ طفیل کا بیٹا، عمران، صہیب و وہیب کا بھائی، حسان و جبران کا والد، ازلان کا دادا …
پورے لاہور ہی کا نہیں، گوجرانوالہ یا حافظ آباد کا نہیں ۔۔۔ پورے پاکستان کا حافظ ۔۔۔ جانتا تھا کہ “دیکھو، وہ

دیکھ رہا ہے” ۔۔۔ اللہ الکریم کے ناظر ہونے کے یقین نے اس پر تکبر اور خود پرستی کا خول کبھی نہ چڑھنے دیا ۔۔۔ اقبال نے اندلس کی جنگ میں جو طارق کی دعا لکھی ہے، اسے پڑھیں، آپ کو اس میں حافظ سلمان ضرور ملے گا ۔۔۔

غازی، یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی

دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں