“محلے میں بچوں کو عربی و ناظرہ قرآن پڑھانے والی باجی کے گھر آٹا اور سبزی نہیں ہے، مگر وہ باپردہ خاتون باہر آکر مفت راشن والی لائن میں لگنے سے گھبرا رہی ہیں.”فری راشن تقسیم کرنے والے نوجوانوں کو جیسے ہی یہ بات پتا چلی، انہوں نے متاثرین میں فری سبزی و آٹا کی تقسیم فوراً روک دیا. پڑھے لکھے
نوجوان تھے. آپس میں رائے مشورہ کرنے لگے. بات چیت میں طے ہوا کہ نہ جانے کتنے سفید پوش اپنی آنکھوں میں ضرورت کے پیالے لیے فری راشن کی لائنوں کو تکتے ہیں، مگر اپنی عزت نفس کا بھرم رکھنے کی خاطر قریب نہیں پھٹکتے.مشورے کے بعد نوجوانوں نے فری راشن کی تقسیم کا بورڈ بدل دیا اور دوسرا بورڈ آویزاں کردیا. ہر طرح کی سبزی 15 روپے کلو، مسالہ فری، آٹا، چاول، دال 15 روپے کلو. خصوصی آفر. اعلان سنتے ہی مفت خور بھکاریوں نے اپنی راہ لی، سفید پوش اور لاچار طبقہ ہاتھوں میں دس بیس روپئے کے ساتھ خریداری کے لئے آگیا. قطار میں کھڑا ہونے سے اسے گھبراہٹ نہ ہوئی، نہ ہلڑ بازی ہوئی. لائن میں ایک طرف بچوں کو قرآن پڑھانے والی باپردہ باجی بھی مٹھی میں معمولی سی رقم لیے اعتماد کے ساتھ نمناک آنکھوں کے ساتھ کھڑی تھیں. ان کی باری آئی پیسے دیئے، سامان لیا اور اطمینان سے گھر آگئیں. سامان کھولا، دیکھا ان کے ذریعہ ادا کی گئی پوری قیمت سنتِ یوسف کی طرح ان کے سامان میں موجود ہے، لیکن انہیں خبر تک نہ ہو سکی تھی کہ کس نے وہ پیسے کب ان کے سامان میں رکھا تھا. نوجوان ہر خریدار کے ساتھ یہی کررہے تھے. یقیناً علم کو جہالت پر مرتبہ حاصل ہے. مدد کیجیے، پر عزتِ نفس مجروح نہ کیجیے!! ضرورت مند سفید پوشوں کا خیال رکھئے، عزت دار مساکین کو عزت دیجیے. (جزاک اللہ الخیر )
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں