جب ایک کشمیری لڑکی نے ایک صحافی کے سامنے پوری دنیا کو دُعا دی اور کہااروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہو گی۔ یورپین یونین نمائندوں کے کشمیر دورے پر، میں ان صحافیوں میں سے ایک تھا جن کو وہاں جانے اور کوّریج کی اجازت ملی تھی۔ تب میرا ایک قریبی دوست بلال احمد ڈار جو ماس
کمیونیکیشن پی جی کے وقت کا دوست تھا، اس سے ملنے کے لیے اس کے گھر جانے کی صرف پانچ منٹ کی اجازت ملی تھی بلال کے گھر سے واپسی کے وقت گلی کے نکڑ پر ایک گھر کی کھڑکی سے ایک خاتون کی اواز آئی۔”اروند بھائی آپ بلال کے دوست ہو نا؟دہلی والے! بلال آپ کی بہت تعریف کرتا ہے، کہتا ہے اروند بہت سمجھ دار انسان ہے، انسانوں کا درد سمجھتا ہے۔”میںنفیسہ عمر ہوں،بلال کی کزن!وقت کی کمی کو سمجھتے ہوئے اس نے جلدی جلدی مجھ سے جو باتیں کہی تھیں، وہ سن کر میں کئی دن سو نہ سکا تھا۔ نفیسہ نے کہا ۔۔۔۔”کسی جگہ پر سات مہینے سے کرفیو ہو، گھر سے نکلنا تو دور، جھانکنا بھی مشکل ہو، چپے چپے پر آٹھ نو لاکھ آرمی تعینات ہو، انٹرنیٹ بند، موبائل بند ہوں، لینڈ لائن فون بند ہو، گھروں سے ہزاروں بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں، ساری لیڈر شپ جیل میں ہو، اسکول، کالج، دفتر سب بند ہوں! کیسے زندہ رہیں گے لوگ؟ ان کے کھانے پینے کا کیا ہو گا؟ بیماروں کا کیا ہو گا؟ کوئی ہمارے لیے سوچنے والا بھی نہ ہو، آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہو، بچے خوفزدہ ہوں، مستقبل اندھیرے میں ہو، ظلم و ستم کی انتہا ہو، اور روشنی کی کوئی کرن بھی نہ دکھائی دیتی ہو، کوئی سدھ لینے والا نہ ہو اور ساری دنیا خاموش تماشا دیکھ رہی ہو۔”نفیسہ روتے ہوئے بولتی رہی”ہم نے سب سہہ لیا، اور سہہ بھی رہے ہیں، لیکن اُس وقت دل روتا ہے، تڑپتا ہے جب یہ سنائی پڑتا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا ہوا، یہی ہونا چاہیے تھا!””میں نے ان لوگوں کے لیے یا کسی کے لیے بھی کبھی بدعا نہیں کی، کسی کا برا نہیں چاہا بس ایک “دعا” کی ہے تاکہ سبھی لوگوں کو اور ساری دنیا کو ہمارا کچھ تو احساس ہو جائے!””اوروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہو گی!”جب میں نے پوچھا “کیا دعا کی بہن آپ نے؟”تو نفیسہ نے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے جو کہا تھا وہ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتا رہتا تھا۔ آج آنکھوں سے دِکھ بھی رہا ہے، شبد شبد وہی لکھ رہا ہوں، اُس کا درد محسوس کرنے کی کوشش کیجئے گا! نفیسہ نے کہا تھا “اے اللہ جو ہم پر گزر رہی ہے کسی پر نہ گزرے بس مولا تو کچھ ایسا کردینا، اتنا کردینا کہ پوری دنیا کچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہوجائے، سب کچھ بند ہوجائے، رک جائے! شاید دنیا کو یہ احساس ہو سکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں!”آج ہم سب اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں! “اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہو گی!”میرے کانوں میں نفیسہ کے وہ شبد ( الفاظ ) آج بھی گونج رہے ہیں۔(دہلی کے ایک سینئر صحافی اروند مشرا کی تحریر)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں