اگر وبا اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے تو پھر احتیاط بھی اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے، اور سائنس سے بہتر وبا سے احتیاط کوئی شخص نہیں بتا سکتا

کرونا وائرس مذہبیوں اور غیرمذہبیوں کے دونوں حلقوں کیلئے بڑا المیہ ہے نہ کہ ایسے دوسرے کو ٹھٹھا کرنے اور طعن و تشنیع کا ایک ذریعہ ہے، اِن دونوں حلقوں کو اپنے اپنے قبلے درست کرنے کی ضرورت ہے، اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ایسے معاملات جو کسی وبا سے جُڑے ہوں ان سے نبڑنے کیلئے ایک

واضع social distanceکی approach دی ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایاإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُجب تم کسی سر زمین میں ( وبا کے متعلق ) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔اس سارے معاملے میں حضرت عمرؓ کی approach بہت ساری الجھی ہوئی مذہبی گتھیاں سلجا دیتی ہے، جو ہمارے موجودہ معاملے سے متصل ہیں، جب شام میں وبا اٹھی تو حضرت عمرؓ نے شام کے رستے سے واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے انہیں تنقیداً کہا کہ آپؓ تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ عمرؓ نے انہیں بڑا ہی خوبصورت جواب دیا، آپؓ نے فرمایا:لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ : نَعَمْ ، نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ ،کاش! یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی، ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں لیکن اللہ ہی کی تقدیر کی طرف۔موجودہ حالات کے مدِنظر ہم سب کو اچھی طرح جان لینا چاہئے اگر وبا اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے تو پھر احتیاط بھی اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے، اور سائنس سے بہتر وبا سے احتیاط کوئی شخص نہیں بتا سکتا ہے، لہذا عقل اور احتیاط کو ہمیشہ ملحوظِ خاطررکھیں، اور یہ قرنطینہ کی مشق بھی کوئی غیر مذہبی نہیں ہے، بلکہ یہ عین اسلامی ہے،مگر ہمارے کچھ مذہبی حلقے اس کو غیر مذہبی رنگ دینے کی کوشش میں لگے ہیں ، یہ مشق حضرت عمروبن عاصؓ کی ہے جس سے انہوں نے بہت سے اصحابِ رسولﷺ کو شام میں پھیلنے والے وبا سے بچا لیا۔آپ ؓنے لوگوں کو یہ مشورہ دیا کہ أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ ہٰذَا الْوَجَعَ إِذَا وَقَعَ فَإِنَّمَا یَشْتَعِلُ اشْتِعَالَ النَّارِ فَتَجَبَّلُوا مِنْہُ فِی الْجِبَالِلوگو! جب یہ بیماری شروع ہوتی ہے تو آگ کے شعلوں کی مانند پھیلتی چلی جاتی ہے، تم اس سے بچنے کے لیے پہاڑوں کی طرف نکل جاؤ۔ بجائے کہ وہ اپنی وبا والی بستیوں اور مسجدوں میں ہمیشہ مستقل قیام کا سوچتے ، یا وہ اپنی وبا والی بستی سے نکل کر کسی دوسری بستی میں داخل ہوتے اور اُس دوسری بستی کو بھی اپنی وبا کا شکار کرتے، اس کے الٹ انہوں نے اپنی مسجدوں اور بستیوں کو چھوڑ کر پہاڑوں کی طرف جانے کا فیصلہ کیا، یوں بہت سارے لوگوں کو اس وبا سےحضرت عمرو بن عاصؓ نے بچا لیا اور خود بھی بچے، موجودہ صورتِ حال میں ہم سب پہاڑوں کا تو رُخ نہیں کر سکتے مگر ہم خود کو اپنے اپنے گھروں ، شہروں، محلوں تک محدود رکھ سکتے ہیں، اب اگر ہم لوگ غور کریں تو رسول اللہ ﷺ نے فتنوں میں ہمیں ایک واضع approachدی ہے، یُوْشِکُ اَنْ یَّکُوْنَ خَیْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِھَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَ مَوَاقِعَ القَطْرِ یَفِرُّ بِدِیْنِہٖ مِنَ الْفِتَنِعنقریب وہ زمانہ آئے گا کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کے پیچھے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر بھاگتا ہوا چلا جائے گاتاکہ وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچالے۔اگر کوئی شخص ان وادیوں اور پہاڑوں کا رخ نہ کر سکے، تو پھر ایک ایسی حدیث بھی ہے جس میں فرمایا گیا،وَتَكُونُ حِلْسًا مِنْ أَحْلَاسِ بَيْتِكَ(فتنوں کے وقت ) اپنے گھر کے کمبلوں میں کا ایک کمبل بن جانا۔صحیح مسلم میں حضرت ابو بَکْرہ ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ فرمایا:(فتنوں میں) جس کے پاس اُونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں کے پاس چراگاہ میں چلا جائے اور جس کے پاس بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں کے ریوڑ میں چلا جائے اور جس کے پاس زمین ہو وہ اپنی زمین پر چلا جائے۔یہ فتنے صرف قتل و غارت گری اور فساد کا نام نہیں بلکہ وباؤں کے پھیلنے ، سیاسی اور معاشرتی انتشار کا بھی نام ہے۔یہ سب باتیں ہو گئی مذہبیوں کے سمجھنے کیلئے ، اب آئیے غیرمذہبیوں کی طرف ، آخر یہ وبا ان لوگوں کےلئے کیسے بڑا المیہ ہے جسے انہیں اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے، اور آنے والے وقت میں بھی اس سے بڑھ کر وبائیں آنے والی ہیں جن کے بارے میں بہت سارے سائنسدان بہت کچھ کہہ چکے ہیں،کیونکہ کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وائرس جو ہمارے علم میں اور جو ہمارے علم نہیں جو انسانی بقا کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں، وہ بھی قدرت میں پائے جاتے ہیں، تاریخ پڑھنے والوں کیلئے یہ موجودہ وبا کوئی نئی بات نہیں ہے، انسان اس سے پہلے بھی موجودہ لمحات سے بُرے لمحات سے گزر چکا ہے، غیر مذہبیوں کی بڑی جماعت سائنس کا مطالعہ کرنے والی ہے، اور انہوں نے عوام کو اس وبا کی ویکسین اور دواؤں کی بنانے کی امید تو دلا دی اور اس وبا سے خوف دلا کر بار بار ہاتھ دھونے پر لگا دیا ہے، یہ لوگ ایسا خوف پھیلا کر اس وقت کچھ اموات تو روک سکتے ہیں کیونکہ یہ خوف اور امید دونوں لوگوں کو ایک وقتی اور عارضی حل ضرور ہے ، مگر

آنے والا وقت اس سے بھی بُرا ہے، سائنس سے جُڑے لوگ personal hygiene یعنی انسانوں کی انکی ذات سے جُڑی حفظان ِصحت کی ترغیب اور اسکی اہمیت کے بارے میں کچھ نہیں بتا رہے، آخر یہ personal hygiene ہم انسانوں کیلئے اتنی اہمیت کی حامل کیوں ہیں،جس میں ہمارے کھانے میں شامل ہونے والے مختلف جزا سے لے کر ہمارے جسم کی صفائی ستھرائی شامل ہے، یہ لوگ ہمیں یہ نہیں بتا ہے، کہ کس غذا سے انسانوں کو دور رہنا اور کس غذا کا انہوں نے استعمال کرنا ہے، اورہمارے جسم کی صفائی ہمارے لئے کتنی اہمیت کی حامل ہے،اگر یہ سب نہ کیا گیا تو انسانو ں کو ان کی کارپٹ سڑکیں، بلند و بالا عمارتیں، smart technology کسی کام نہیں آئے گی۔آج سے کچھ عرصہ پہلے یورپیوں کی personal hygiene پر ایک survey ہوا تھا، جس میں سے حفظانِ صحت کے معاملات میں top پر بوسنیا اور ترکی کے ممالک آئے تھے، وجہ وہاں پر بسنے والے 90 فیصد مسلم لوگ تھے، اور انکے مذہب کی تعلیمات تھی، انکا 5 وقت وضو کرنا اور اپنے جسم کو صاف ستھرا رکھنا اور صاف ستھری غذاؤں کا استعمال کرنا تھا، اور personal hygiene میں سب سے low level پر Netherlands کے لوگ تھے، جن میں 50 فیصد لوگوں تھے جن کا کہنا تھا وہ toilet سے نکل کر ہاتھ نہیں دھوتے،اسیطرح ، اٹلی کے 43 فیصد اوراسپین کے39 فیصد، فرانس کے 38 فیصد کا کہنا تھا وہ toilet سے نکل کر ہاتھ نہیں دھوتے، اب موجودہ یورپ کے حالات دیکھ لیں ہیں، اور اس personal hygiene کے survey کو موجودہ کرونا وائرس کے بحران کی نظر سے دیکھیں، جو کہ ایک قوی اندازہ کے پیشِ نظر یہ وائرس جو کہ چمگاڈر یا Pangolins کھانے اور پھر اور کسی اور بُری غذا کے جو کہ قوی امکان کسی جانور کےکھانے سے شروع ہوا، اور اوپر سے personal hygiene نہ ہونے کی وجہ سے اس وبا کا بے قابو ہو جانا ،جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنے گرفت میں لے لیا، موجودہ حالات کو دیکھیں تو

اسلام کے پیروکار وں کی بڑی تعداد نماز کی پابندی نہ ہونے کی وجہ سے 5 وقت وضو کرنے والی personal hygienic routine سے بھی نکل گئی ہے، بہت کم ہی مسلم نمازی ہیں جو اس routine پر پابند ہیں اور اِن لوگوں کے لئے بار بار ہاتھ دھونا کوئی غیر معمولی یا غیر فطری کام نہیں ہے، جب تک ہم سب مذہبی اور غیر مذہبی لوگ personal hygiene کی ترغیب اور اسکی اہمیت کو اجاگر نہیں کرتے اس وقت تک ایسے وائرس اور وبائیں ہم میں پھوٹتی رہیں گی اور ہم لوگ بھی مرتے رہیں گے، جس پر ہم سب مذہبی اور غیرمذہبی دونوں حلقے ہمیشہ بے بس رہیں گے۔امریکہ میں ملٹری ٹریکنگ کے دوران 1996 سے 1998 تک 1.089 ملین لوگوں کاdata لیا گیا، اس ریسرچ کا مقصد ہمارے ہاتھ دھونے کے معمولات کا ہمارے نظام تنفس پر پڑنے والے اثرات کا معائنہ کرنا تھاا، جس کا نتیجہ انہوں نے یہ اخذ کیا کہ ہاتھ دھونے والے لوگوں میں 45 فیصد نظامِ تنفس کےinfections اور بیماریوں کے شکایات جو نہ ہاتھ دھونے والے لوگ تھے انکی نسبت کم تھیں، ہم مسلمانوں کو مذہب اور سائنس کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہو گا، ورنہ آدھا مذہبی طبقہ توکل کے نام پر اپنی جہالت سے مارا جائے گا،کیونکہ انہوں نے اپنے رسول ﷺ کا مشورہ ماننے سے انکا ر کر دیا، جب ایک شخص نے آپﷺ سے پوچھا کیا میں (نماز) کیلئے اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا اسے ایسے ہی چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ ا س پر آپ ﷺ نے فرمایااعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ ،‏‏‏‏”پہلے اپنےاونٹ کو باندھو پھر اللہ پر توکل کرو۔ اور اسی طرح آدھا طبقہ جو سائنس کا پیروکار ہے وہ اپنی سائنس پر تکیہ کر کے مارا جائے گا کہ اسکی سائنس ایک مسیحا بن کر ویکسین اور کوئی دوا اسکے لئے نکال لے گی مگر تب تک اسکے لئے بہت دیر ہو جائے گی، یہ دونوں طبقے( مذہبی اور غیر مذہبی ) ایک ہی کام کر رہے ہیں، تکیہ اور توکل، مگر دونوں کے اپنے اپنے انداز ہیں، ان دونوں کو اپنے اپنے قبلے کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے نہ کہ ایک دوسرے کو ٹھٹھا کرنے کی۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں