دو ہزار تیرہ کا نومبر تھا۔ میرے چھوٹے بیٹے کے دنیا میں آنے میں قریب ایک مہینہ باقی تھا۔ ہم کسی ضروری کام سے گاؤں گئے۔ گاؤں پہنچ کر مجھے بخار آ گیا ۔ جسم میں درد تھا اور جوڑ دکھ رہے تھے۔ یہ سفر کی تھکان ہو سکتی تھی۔مگر اگلے ہی روز مجھے شدید بخار اور درد نے آن لیا ۔ جسم کے ایک ایک ریشے میں
ایسا کاٹ دار درد اور اینٹھن تھی جس کا بیان الفاظ میں نہیں ممکن۔ میں سخت جان عورتوں میں شمار کی جا سکتی ہوں۔آپریشن کی اگلی صبح بچے کی پرام کے سہارے واک کر کے میں واپس کمرے میں آئی تو نومولود کو چیک کرتی ڈاکٹر نے پہلے حیرت سے دیکھا پھرہنس پڑی۔یہ کوئی انوکھی بات تو نہیں مگر سخت جانی کی مظہر ضرور ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ بخار یا جسم میں درد کو میں کتنی اہمیت دے سکتی ہوں۔ لیکن اس درد نے حقیقتاً مجھے پچھاڑ دیا۔ گاؤں میں سڑک گھر سے دور ہے اور یوں بھی نزلہ بخار میں ہسپتال جا کر اپنا مضحکہ بھی کوئی نہیں بنواتا۔ میں نے بھی گھر پہ دستیاب پیناڈول کی دو گولیاں کھاکر دھوپ میں چارپائی ڈالی اور دو لحاف لیکر لیٹ گئی۔دو دن بخار سے شدید جنگ میں میری قوت ارادی جیت گئی۔ ہم واپس آ گئے۔ یونیورسٹی جانا شروع کر دیا۔ بخار نے خاصا نچوڑا تھا۔ ساتھ ہاتھوں میں ہلکی سی سرخی اور خارش بھی ہونے لگی۔ پڑھاتے ہوئے سانس پھول گیا تو بچیوں سے معذرت کر کے بیٹھ کر پڑھانے لگی۔ایک بچی نے کہا “آپکو ڈینگی تو نہیں ہو گیا؟” میرا دل دہل گیا۔ بہت ساری بچیوں نے تصدیق کی کہ یہ ڈینگی کی علامات ہیں۔شام کو ٹسٹ کروایا۔ ڈینگی پازیٹو تھا۔ڈاکٹر کو ملی۔ ٹیسٹ دوبارہ ہوئے۔ بہت سارے ٹیسٹ مزید ہوئے تاکہ ‘نا مولود کی کنڈیشن جانچی جائے۔ ماشاءاللہ مزے میں تھا۔ بار بارٹیسٹ ہوتا رہا ڈینگی خون میں موجود رہا یہاں تک کہ موسیٰ کی ولادت ہو گئی۔ تین اعشاریہ آٹھ کلو وزن اور پرفیکٹ ریفلکسز کیساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے مکمل صحت مند وجود عطا فرمایا تھا۔الحمدللہ۔بعد میں کہیں ڈینگی میرے جسم سے بھی زائل ہو ہی گیا۔ یہ ساری کہانی آج کیوں سنائی؟بس یہ بتانا تھا کہ موت ہی زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔جب تک وقت نہ آجائے دنیا کے تمام وائرسز مل کر بھی آپکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔وقت آ جائے تو پیغمبروں کو بھی ایکسٹنشن نہیں ملتی۔ مگر وائرس یا موت کا خوف وقت سے پہلے مار دیتا ہے۔ میں نے جب اپنی رپورٹ پازیٹو دیکھ کر ڈاکٹر سے پوچھا کہ ‘میں بچ جاؤنگی؟ تو وہ قہقہہ لگاکر بو لی تھیں۔تم بچ گئی ہو۔ یہ وائرس کی باقیات ہیں بس۔ تم نے انجانے میں اپنی پوری قوت سے ڈینگی سے جنگ کر لی۔ شاید معلوم ہوتا تو خوف کیوجہ سے تم اتنا اچھا نہ لڑ سکتیں”بس یہی کہنا تھا۔خوف زندگی اور موت کی جنگ میں موت کا ساتھی ہے۔ موت کو شکست دینے کیلیے پہلے اسے مارنا پڑتا ہے۔ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کیجیے مگر خوف زدہ مت ہوں۔ زندگی اللہ کی امانت ہے۔ وقت مقرر ہے۔ہمارا اختیار دعا اور صفائی پہ ہے۔ باقی اللہ پہ چھوڑ دیں۔ اللہ بہترین کرتاہے۔(تحریر ،نائلہ رفیق)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں