قرآن کریم نے ناشکرے، تھڑ دلے، بے صبرے انسان کی نفسیات کے کئی اہم پہلو ہمارے لیے واضح کیے ہیں۔ جب وہ نعمتوں میں گھرا ہوا ہو تو اللہ کو بھول جاتا ہے، بڑے بڑے دعوے کرنے لگتا ہے، اپنی صلاحیتوں کے گن گانے لگتا ہے؛ لیکن جب اس پر مصیبت آتی ہے تو اس کےلیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے لگتا ہے،
لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتا ہے، مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے؛ پھر جب دوبارہ اللہ تعالیٰ وہ تکلیف دور کرتا ہے، دوبارہ نعمت دیتا ہے، خوف کے عالم سے یہ نکل آتا ہے، تو پھر یہ اللہ کو بھول جاتا ہے، پھر کہتا ہے کہ کبھی تکلیف، کبھی راحت، یہ سب تو بس “نیچرل” ہے۔ یوں یہ کبھی راحت میں تکبر کی روش اختیار کرتا ہے، کبھی تکلیف میں مایوسی کا شکار ہوتا ہے؛ کبھی مصیبت میں خدا کو پکارتا ہے، کبھی مصیبت دور ہونے پر خدا کو بھول جاتا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک دن اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے، اس کی مہلت ختم ہوجاتی ہے، اس کا ویزا کینسل ہوجاتا ہے، واپسی کا ٹکٹ کٹ جاتا ہے، ڈی پورٹ کیے جانے کا لمحہ آجاتا ہے۔پھر یہ منت سماجت کرتا ہے، تھوڑی سی مزید مہلت مانگتا ہے، بس ایک موقع، بس ایک بار، بس آخری بار، پھر اگر میں نے ایسا کیا تو بے شک بڑی سزا دے دینا، بس اس بار معاف کردے؛ یہ کہتا جاتا ہے، چیختا ہے، چلاتا ہے، روتا ہے، گڑگڑاتا ہے، لیکن جب وقت پورا ہوجائے تو نہ ایک لمحہ آگے ہوتا ہے، نہ پیچھے۔آلِ فرعون کو دیکھیے۔ کبھی میں سوچتا تھا کہ یہ کیسے لوگ تھے کہ ان پر ایک سے بڑھ کر ایک آزمائش آتی گئی لیکن ان کو ہوش نہیں آیا یہاں تک کہ سب کے سب دریا میں غرق ہوگئے۔ پہلے خشک سالی آئی اور پیداوار میں کمی ہوئی۔ جب موسی علیہ السلام کی دعا کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ تکلیف دور کی تو یہ مزید سرکشی میں مبتلا ہوگئے۔ پھر ایک ایک کرکے اللہ تعالیٰ ان پر مختلف آزمائشیں لاتا رہا؛ کبھی طوفان کی صورت میں، کبھی ٹڈل دل کی شکل میں؛ کبھی کٹھمل بھیجے، تو کبھی مینڈک اور کبھی خون۔ ہر آزمائش پہلی سے بڑھ کر۔ ہر دفعہ آزمائش آتی تو وہ موسی علیہ السلام کی طرف لپکتے، دعا کےلیے کہتے، اللہ کا حکم مان جانے کے دعوے کرتے، لیکن جب آزمائش دور ہوجاتی تو پھر نافرمانی اور سرکشی شروع کردیتے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا جب فرعون نے پہلے موسی علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کو جانے کی اجازت دی اور پھر لاؤ لشکر اکٹھے کرکے ان کا پیچھا کیا اور جب ان کےلیے دریا میں راستہ بن گیا تو وہ بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت دریا میں داخل ہوا۔ پھر جب ڈوبنے کا احساس ہوا تو فرعون چیخ اٹھا کہ وہ بنی اسرائیل کے رب، موسی و ہارون علیہما السلام کے رب، پر ایمان لے آیا لیکن تب واپسی کا دروازہ بند ہوچکا تھا۔میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ کیسے بے وقوف لوگ تھے کہ اتنی ساری نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں۔لیکن پھر خود اپنے گریبان میں جھانکنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ہم بھی یہی تو کرتے ہیں۔ تکلیف آتی ہے تو اللہ یاد آجاتا ہے، تکلیف دور ہوجاتی ہے تو پھر نافرمانیوں میں لگ جاتے ہیں۔ کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو سب جھوٹے سہارے بھلا کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ خشکی پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر اللہ کو بھول جاتے ہیں۔کیا فرق ہے ہم میں اور آلِ فرعون میں؟کیا کورونا کی یہ آزمائش ہمیں اس سوال پر غور کرنے پر مجبور کردے گی؟ کیا یہ اللہ کی رحمت ہی نہیں ہے جو اس طرح کی آزمائشیں لاکر ہمیں اللہ کی طرف رجوع کا موقع فراہم کررہی ہے؟یا ایھا الذین توبوا الی اللہ توبۃً نصوحاً(اے ایمان والو! لوٹ آؤ اللہ کی طرف سچے دل سے توبہ کرکے)
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں