ایک ٹی وی پروڈیوسر صاحب کو ماہِ رمضان کی خصوصی نشریات کا انچارج بنایا گیا، وہ اپنی تجاویز مرتب کر کے میرے پاس لائے تو نشریات کی میزبانی کیلئےمجوزہ نام ایک معروف رقاصہ کا تھا۔
پروڈیوسر صاحب نے فخریہ طور پر بتایا کہ مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ والے بھی اس نام پر متفق ہیں، رقاصہ بھی مان گئی ہے، رقم بھی طے ہو گئی ہے۔
یہ بیس بائیس برس پرانا قصہ ہے، پرائیویٹ میڈیا کاآغاز ہو رہا تھا، اور ابھی رمضان شریف اور شو بز سلیبرٹیز کا تعلق نیا نیا تھا۔ قصہ مختصر، اس رقاصہ کا نام رمضان کی نشریات کی میزبانی کے لیے رد کر دیا گیا۔
خیال یہی تھا کہ نہ ہم کسی عالمِ کو رقص و موسیقی کے پروگرام میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں، اور نہ کسی رقاصہ سے کسی مذہبی پروگرام کی میزبانی کروائیں گے۔ رمضان میں ٹی وی پر دین کا پروگرام وہی کرے گا جو سال بھر دین کا کام کرتا ہے۔ جس طرح عید قربان پر اناڑی قصائیوں سے حذر ایک خوش گوار عید کی ضمانت بن سکتا ہے، ہم نے یہی اصول اپنے ٹی وی کی رمضان ٹرانسمیشن کا بھی طے کیا ۔
اب مڑ کر دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ پی ٹی وی کس قدر ثقہ ادارہ تھا، اپنے اپنے شعبے کے انتہائی سربرآوردہ لوگ ہی اس پر دکھائی دیتے تھے، ضیا محی الدین سے استاد سلامت علی خان اور علامہ رشید ترابی سے جاوید جبار تک، جس طرف نگاہ اٹھتی ایسے ہی نابغے دکھائی دیتے۔
جب ٹیکنالوجی کی ڈیموکریٹ آئیزیشن ہوتی ہے تو عوام فیض یاب ہوتے ہیں، اور اپنے شعبے کے ماہرین کا تصور کچھ دھندلا سا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں بہت کم لوگ تھے جنہوں نے کیمرا کبھی ہاتھ میں تھام کر دیکھا ہو، اور وڈیو کیمرا تو ایک باقاعدہ عجوبے کا درجہ رکھتا تھا۔ بہرحال جب پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا، تو بہت سے معاملات کوtrivialize کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہر چیز کو ٹرویالائزکرنے کی بنیاد کارپوریشنز اور کنزیومرازم کے’’اصولوں‘‘ نے رکھی، جن کا اظہار میڈیا کے توسط سے ہوتا ہے ۔ ’’زیادہ سے زیادہ بیچو‘‘ کے اصول میں ثقاہت کی گنجائش قدرے کم رہ جاتی ہے۔ معروف شاعرشہزاد احمد کا جملہ ذہن میں آ رہا ہے، وہ کہا کرتے تھے کہ جب سے اخبارات کے رنگین ادبی صفحات شروع ہوئے ہیں، ادب بھی شوبز کی سطح پر اتر آیا ہے، ان صفحات نے ادب اور ادیب کو trivialize کیا ہے۔ جب نیا نیا سوشل میڈیا آغاز ہوا، تو جید صحافی اس کا مذاق اڑاتے تھے، اور بجا اڑاتے تھے کہ صحافت جس کے بنیادی اصول سیکھنے اور ان میں مہارت حاصل کرنے میں دہائیاں صرف ہو جایا کرتی تھیں، اب وہ ’’ہنر‘‘ راتوں رات سیکھا جا سکتا ہے، اور لاکھوں کروڑوں ’’صاحبانِ بصیرت‘‘ سے داد بھی لی جا سکتی ہے، شہرت بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور ڈالرز بھی کمائے جا سکتے ہیں۔ آج بھی اپنے آس پاس لوگوں سے ہم یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ آپ یو ٹیوب پر کون کون سے ’’صحافیوں‘‘ کے وی لوگ سنتے ہیں، جواب میں خال خال ہی کسی صحافی کا نام سننے میں آتا ہے، اب یہ کہنے میں کیا شرمانا کہ اس حوالے سے ہم اپنے تعصبات پر آج تک قابو نہیں پا سکے۔
کئی دہائیاں پرانی بات ہے ایک دفعہ ریڈیو پاکستان پر احمد ندیم قاسمی صاحب کا ایک انشائیہ سننے کا اتفاق ہوا، مرکزی خیال تھا لفظ ’’انقلاب‘‘ کی بے حرمتی، یعنی کس طرح انسانی معاشرے کی اتھل پتھل، اور عظیم الشان تغیر کو ظاہر کرنے والے تصور کو ہم نے trivialize کیا ہے، قاسمی صاحب نے انارکلی بازار میں ایک چھابڑی فروش کی مثال دی جو باآوازِ بلند اعلان کر رہا تھا کہ میتھی کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا ہے اور اس سے میتھی خریدنے والے کی زندگی یک سر منقلب ہو کر رہ جائے گی۔ اسی طرح ایک لفظ ہے ’’مرشد‘‘، ایک لفظ جس سے تکریم اور طہارت جُڑی ہوئی ہے۔ مرشد کا معنیٰ ہے راستہ دکھانے والا، راہ نمائی کرنے والا۔ یہ ایک دینی اصطلاح ہے جس میں مرشد سے مراد وہ نیک و صالح شخص ہے جو لوگوں کو دین کا راستہ بتاتا ہو، صوفیائے کرام کے ہاں مرشد اس شیخِ کامل کو کہتے ہیں جس کے باطن کا تزکیہ ہو چکا ہو اور اس کی صحبت میں بیٹھنے سے دنیا سے بے توجہی اور آخرت کی رغبت و اللہ تعالیٰ کی یاد پیدا ہوتی ہو۔اب اپنے گردوپیش نظر دوڑائیے، ہم نے کس طرح اس اصطلاح کو trivialize کیا ہے، ہم اپنے محبوب سیاسی راہ نماکے لیے یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیںخواہ اس کا ظاہر و باطن ’’نیکیوں‘‘ میں دھنسا ہو۔ دو قدم پیچھے ہٹ کر دیکھیں تو منظر کی مضحکہ خیزی کبھی آپ کو ہنسائے گی کبھی خون کے آنسو رلائے گی۔ دین ومذہب کو ہم ’’اسلامی ٹچ‘‘ کی سطح پر لے آئے ہیں اور ’’گاہک بھی سبھی خوش ہیں یہ سودا خرید کر۔‘‘ چھبیسویں نومبر کو جب پختونخوا سے اسلام آباد پر لشکر کشی کی گئی تو اس کے بعد لفظ ’’شہادت‘‘ کو trivialize کرنے کا سلسلہ آغاز کیا گیا۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ریاست کی بندوق سے اگر ایک سیاسی کارکن بھی قتل کیا جاتا ہے تو ہم آگے بڑھ کر اس کی مذمت کریں گے، لیکن شومئی قسمت کہ ہمیں پی ٹی آئی کے دوستوں نے بیسیوں اور سینکڑوں شہادتوں کی لغو بحث میں الجھا دیا۔ ’’آج] ہمارے پاس کرنے کو کچھ خاص نہیں ہے، بوریت ہو رہی ہے، کیا کیا جائے؟‘‘ ’’جانی،میرے پاس ایک بہترین آئیڈیا ہے، let’s do civil disobedience ۔‘‘یہ مکالمہ trivialize کرنے کی بہترین مثال ہے۔ سول نافرمانی جو کہ احتجاج کی انتہائی شکل ہے جسے سامراج کے خلاف آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، اسے بھی ہم نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ حد ہو گئی!
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں