جنرل گریسی کشمیر اور فیض: خصوصی تحریر، پروفیسر فتح محمد ملک

جس سانحہ کو ہماری قومی تاریخ میں راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا ہے اُسے فیضؔ نے سازشِ اغیار قرار دیا ہے:

فکر دلداریٔ گلزار کروں یا نہ کروں
ذکر مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
قصّۂِ سازشِ اغیار کہوں یا نہ کہوں
شکوۂ یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں

مقدمۂِ سازش کے اختتام پر ملزموں کے وکیل حسین شہید سہروردی کو پیش کیا گیا منظوم سپاسنامہ یوں شروع ہوتا ہے:

کس طرح بیاں ہوا ترا پیرایۂ تقریر
گویا سرِ باطل پہ چمکنے لگی شمشیر
وہ زور ہے اک لفظ ادھر نطق سے نکلا
واں سینۂ اغیار میں پیوست ہوئے تیر
اعجاز اسی کا ہے کہ اربابِ ستم کی
اب تک کوئی انجام کو پہنچی نہیں تدبیر
اطرافِ وطن میں ہوا حق بات کا شہرہ
ہر ایک جگہ مکر و ریا کی ہوئی تشہیر
روشن ہوئے افمید سے رُخ اہلِ وفا کے
پیشانیٔ اعدا پہ سیاہی ہوئی تحریر

یہ قصیدہ سہروردی مرحوم سے زیادہ خود ملزمان کی مدح میں ہے۔ اس مقدمے کے اسیروں کو اگر اہلِ یقین، مردان صفا کلیش، احرار اور اہلِ وفا کہا گیا ہے تو مدعیان کو اربابِ ستم ہی نہیں اغیار بھی بتایا گیا ہے اور ساری کارروائی کو حق و باطل کے درمیان برپا جنگ کے استعاروں میں بیان کیا گیا ہے:

ہر دور میں معلون شقاوت ہے شمر کی
ہر عہد میں مسعود ہے قُربانیِٔ شبیر

سلیمہؔ فیض نے فیضؔ کی گرفتاری سے لے کر جیل میں اُن کے ساتھ پہلی ملاقات تک کے رنج و دہشت کا بیان ان الفاظ پر ختم کیا ہے:

’’ہم بہت گلے ملے، بہت پیار کیا اور چلتے وقت ابّو سے پوچھا آپ نے کیا کیا ہے۔ بولے بکواس کرتے ہیں، کچھ بھی نہیں کیا۔ جلد آ جائیں گے۔ سب جھوٹ اور فراڈ ہے۔ (۱)‘‘

اس ’’جھوٹ اور فراڈ‘‘ نے جہاں فیضؔ کی ذاتی زندگی کو مصائب و آلام سے مسلسل دوچار رکھا ہے اور فیضؔ کی شاعری کی سمت و رفتار کو متعین کیا ہے وہاں ہماری سیاسی اور تہذیبی تاریخ پر بھی انمٹ اثرات مرتب کیے ہیں۔ فیض کی شاعری اور پاکستان کی تاریخ، ہر دو کو سمجھنے کے لیے اس سانحۂ عظیم پر غور و فکر لازم ہے۔ ہر چند لیاقت علی خان کی شہادت اور سقوطِ ڈھاکہ کی طرح اس مقدمۂ سازش کی کاروائی بھی ہنوز صیغۂ راز میں ہے تاہم اب تک منظرِ عام پر آنے والے مواد سے حقیقت تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ فیضؔ کی شاعری کی بدولت فیضؔ کا موقف عام ہی نہیں مقبولِ عام بھی ہو چکا ہے:

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
دل مدعی کے حرفِ ملامت پہ شاد ہے
اے جانِ جاں یہ حرف تیرا نام ہی تو ہے

اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مدعی کی بات سُنی جائے۔ ایوب خان نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ:

’’جنرل گریسی نے رخصت ہوتے وقت مجھ سے زیادہ تو کچھ نہیں کہا بس اتنی سی بات کی تھی کہ فوج میں ایک ’’ینگ تُرک‘‘ پارٹی موجود ہے۔ میں نے وضاحت چاہی تو اس نے کہا کہ اکبر خان جیسے چند مخصوص لوگ ہیں۔ دو یا تین مہینے بعد اکبر سازش کا انکشاف ہوا۔ مجھے اس سازش کا علم وزیراعظم لیاقت علی خان سے ہوا۔ وہ اس وقت انتخابی مہم پر تھے اور انہوں نے مجھے اور سکندر مرزا کو سرگودھا ریلوے سٹیشن پر ملاقات کے لیے طلب کیا تھا…… انہوں نے کہا ’جنٹلمین! میرے پاس آپ کے لیے ایک بدخبری ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ فوجی افسروں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا ہے اور وہ بہت جلد اس کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں‘ میں نے فوراً تفصیلات مانگیں۔ انہوں نے مجھے صوبہ سرحد کے گورنر آئی آئی چندریگر کی بھیجی ہوئی رپورٹ دی۔ (۲)‘‘

پولیس افسر کیانیؔ کی رپورٹ پر ایک فوجی افسر سے پوچھ گچھ ہوئی۔ ایک اور فوجی افسر کا فون ٹیپ کیا گیا تو شبہ یقین میں بدل گیا۔ انسپکٹر جنرل پولیس قربان علی خان کو صورتِ حال سے آگاہ کیا گیا اور چند سول اور فوجی افسروں کو حراست میں لے کر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ مقدمہ کی بنیاد وہ ’’تھیسس‘‘ بنا جو اکبر خان کے ہاں سے برآمد ہوا تھا اور جس میں:

’’اس نے وزیراعظم اور ہر کسی کو فیصلے دینے کے ناقابل اور نااہل قرار دیا تھا۔ (۳)‘‘

حکومت کی نااہلی کے اس تذکرہ پر مجھے خود ایوب خان کی وہ گفتگو یاد آتی ہے جو انہوں نے اس واردات سے صرف چند ماہ قبل میجر جنرل شیر علی کے ساتھ کی تھی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ایوب خان کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر ترقی دے کر ڈپٹی کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے انگریز پیش رو جنرل گریسی سے چند اسرار و رموز سیکھ سکیں۔ اپنے لندن کے دورہ کے دوران ایوب خان نے شیر علی کو مستقبل کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے وقت مطلع کیا تھا کہ:

’’اس فوج نے اُس سے بہت عظیم تر اور وسیع تر کردار سرانجام دینا ہے جس کی لوگ اس سے توقع رکھتے ہیں۔ آج کی صورتِ حال میں ہمارے ملک میں کمانڈر انچیف دراصل وزیراعظم سے زیادہ اہم شخصیت ہے۔ (۴)‘‘

گویا انگریز کمانڈر انچیف نے جاتے جاتے پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف کو جو سبق پڑھایا وہ وزیراعظم پر کمانڈر انچیف کی بالادستی کا سبق تھا۔ اب آئیے یہ دیکھیں کہ فوج کے اندر جس ’’ینگ تُرک پارٹی‘‘ کے خطرناک وجود سے جنرل گریسی پریشان ہے وہ کن لوگوں پر مشتمل ہے۔ میجر اسحاق محمد کا کہنا ہے کہ:

’’پنڈی کیس کوئی سازش نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس زمانے میں پاکستان کی حکومت پاک امریکی فوجی معاہدے کے لیے رضامند ہو چکی تھی لیکن اُسے فوج میں محب وطن عناصر کی طرف سے خطرہ تھا کہ وہ ملک کو امریکہ کی غلامی میں نہیں جانے دیں گے۔ دوسرے کشمیر میں یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو جنگ بندی کی گئی وہ پاکستان کے حکمران طبقوں، بھارت کے حکمران طبقوں اور انگریزوں کے درمیان ایک سازش کا نتیجہ تھی۔ اس کے خلاف فوج میں شدید ردِّعمل تھا۔ یاد رہے کہ جن فوجی افسروں کو پنڈی سازش کیس میں ملوث کیا گیا وہ سب کشمیر میں لڑے تھے۔ (۵)‘‘

یہ ہے مقدمۂ سازش کے ایک ایسے ملزم کا بیان جس نے اپنے کیریئر کے آغاز ہی میں بہادری کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز …وکٹوریہ کراس… حاصل کیا تھا اور جس نے مقدمہ کی کارروائی شروع ہوتے ہی مطالبہ کیا تھا کہ:

’’مائی لارڈ! میں فوجی افسر ہوں، اگر میرے خلاف شکایت ہے تو آرمی ایکٹ کے تحت ’مجھے کورٹ مارشل میں پیش ہونا چاہیے تھا۔ سول عدالت کو میرے خلاف کسی کارروائی کا حق نہیں پہنچتا۔ جسٹس رحمان چلّانے لگے تھے، تمہیں کچھ معلوم نہیں کہ تم کس عدالت میں ہو، ایسا سبق سکھائوں گا کہ یاد کرو گے۔ پَل بھر کے لیے عدالتی ہال میں سنّاٹا چھا گیا اور پھر اسحاق نے بہت شانت آواز میں کہا: Go Ahead my Lord! یعنی جو جی چاہے کرو۔ (۶)‘‘

اسحاق محمد کا کردار کتنا ہی بے داغ اور اُن کی زندگی کتنی ہی اُجلی کیوں نہ ہو، تھے تو وہ مقدمہ کے ایک فریق۔ یہاں میں اُن کی تائید میں دو غیر جانبدار حضرات کی رائے پیش کرتا ہوں۔ پروفیسر وارث میرؔ نے مصدقہ شواہد کی بنا پر بتایا ہے کہ:

’’جنگ کشمیر میں سرینگر اڈے تک پہنچ جانے کے بعد حکومت پاکستان کے فیصلۂ جنگ بندی کو اکبر خان ہضم نہ کر سکے تھے اور اسی لیے انگریز کمانڈر انچیف اور اس کے قریبی اعلیٰ فوجی افسروں کی نظر میں ’’مشکوک‘‘ تھے۔ صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ تخیّل تھے اور اختلاف کا اظہار کر دینے کے بھی عادی تھے۔ جنرل گریسی نے اُن کی خُفیہ رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’اکبر خان اپنے کیریئر کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ اسے سیاست اور فوج میں سے کسی ایک کیریئر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ‘ میر جنرل اکبر خان کا تقاضا تھا کہ انگریز فوجی افسروں کو انگلینڈ واپس بھیجا جائے۔ پنڈی کیس میں ملوث جنرل محمد نذیر خان نے اگرچہ صرف ایک بار ریسٹ ہائوس اٹک میں اکبر کی طرف سے دیئے گئے پکنک لنچ میں شرکت کی تھی لیکن یہ بات لیاقت علی خان اور ایوب خان دونوں کو سخت ناگوار گزری تھی۔ (۷)‘‘

سید محمد وہ پولیس افسر ہیں جنہوں نے جنرل نذیر کو گرفتار کیا تھا۔ موصوف اپنے انگریزی مضمون ’’راولپنڈی سازش کی حقیقت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’جنرل گریسی جنرل نذیر کے اینٹی برٹش روّیہ کی بنا پر اُن سے نفرت کرتے تھے۔ بہت سے سینئر برٹش افسروں کی مانند گریسی بھی غلامانہ ذہنیت کے پاکستانی افسروں کو پسند کرتے تھے۔ سازش میں ملوث افسران کٹھ پتلی نہیں تھے۔ یہ سارے کے سارے افسر بہادر اور صاحبِ کردار لوگ تھے مگر ایوب خان ایک وی۔ سی۔ او کے بیٹے تھے اور انگریزوں کی خوشامد اُن کی گھٹی میں پڑی تھی… جنرل گریسی نہ صرف ایوب خان کو فوج پر مسلط کرنے کے خواہاں تھے بلکہ وہ پاکستان کو دفاعی اعتبار سے بھی کمزور دیکھنا چاہتے تھے… پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو کمزور بنانے اور افواجِ پاکستان کی قیادت تاجِ برطانیہ کے وفادار جرنیل کے سپرد کرنے کے لیے جنرل گریسی کی چالیں بالآخر کامیاب ہو گئیں۔ (۸)‘‘

کچھ عجب نہیں کہ جنرل گریسی نے ایوب خان کے ساتھ ساتھ لیاقت علی خان کو بھی اُلٹی پٹی پڑھائی ہو اور وہ بھی اس کے فریب میں ا گئی ہوں۔ وزیراعظم لیاقت علی خان اُس زمانے میں اندرونی اور بیرونی دبائو میں گھرے ہوئے تھے۔ سرگودھا میں انتخابی مہم کے دوران جس وقت اُن پر یہ سازش منکشف ہوئی تھی اُس سے صرف چند ماہ پہلے میاں افتخار الدین اور اُن کے ہم نوائوں نے ’’آزا د پاکستان پارٹی‘‘ کی داغ بیل ڈالی تھی اور ان کے پروگریسوں پیپرز لمیٹڈ پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر صحیح معنوں میں آزاد اور خود مختار رکھنے کا پراپیگنڈہ کرنے میں مؤثر کردار ادا کر رہے تھے۔ فیض احمد فیضؔ نہ صرف آزاد پاکستان پارٹی کا منشور مرتب کرنے میں پیش پیش تھے بلکہ اُن کی قیادت میں پرگریسو پیپرز لمیٹڈ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ یہ تو تھی داخلی صورتِ حال، خارجہ دبائو کا عالم یہ تھا کہ بقول پروفیسر وارث میرؔ:

’’اب تو لندن میں دولتِ مشترکہ کی دستاویزات بھی بول اٹھی ہیں کہ لیاقت علی خان کو دورۂ رُوس کی دعوت ملنے پر ایران میں برطانوی سفیر اور لندن میں کامن ویلتھ کے سیکرٹری کو سخت پریشانی ہوئی تھی اور دونوں فارن آفس کو قائل کرتے رہے کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پر دبائو ڈالیں کہ امریکی حکومت، پاکستان کے وزیراعظم کو دورۂ امریکہ کی دعوت دے۔ اس سے پیشترکہ برطانوی فارن آفس رسمی طور پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک اپنے دلائل پہنچاتا، واشنگٹن کے دورے کے دوران پاکستان کے وزیرِ مالیات جناب غلام محمد نے اس مسئلہ کو یوں حل کر دیا کہ انہوں نے خود ہی پاکستان کے وزیراعظم کو دعوت نامہ بھیجنے کی تجویز قبول کر لی۔ (۹)‘‘

چنانچہ لیاقت علی خان نے ’’سازشیوں‘‘ کو بنگال کانسپریسی ایکٹ مجریہ ۱۸۱۸ء کے تحت گرفتار کروا کر اور بعد ازاں آئین ساز اسمبلی سے مقدمۂ سازش کی سماعت کے لیے ایک خصوصی ٹربیونل تشکیل دلوا کر امریکہ کی راہ لی۔

مقدمہ کی سماعت کا طریقِ کار بجائے خود ایک سازش سے کم نہ تھا۔ آرمی ایکٹ کے تحت اس لیے سماعت نہ کی گئی کہ اس میں چند عام شہری بھی ملوث پائے گئے تھے مگر مقدمہ سِول عدالت میں بھی پیش نہ کیا گیا۔ ۱۳۔ اپریل ۱۹۵۱ء کو آئین ساز اسمبلی میں ایک خصوصی ٹربیونل کی تشکیل کا بِل پیش کیا گیا۔ بِل پر بحث کے دوران میاں افتخار الدین نے مقدمہ کی تمام کارروائی کو خفیہ رکھنے کی بجائے کھلی عدالت میں سماعت پر زور دیا۔ میاں صاحب کا موقف یہ تھا کہ کھلی عدالت میں جب سازش بے نقاب ہو گی تو پاکستانی عوام سازشیوں کی مذمت اور حکومت کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور یوں پاکستان کی سا لمیت اور تحفظ کے تقاضے بطریقِ احسن پورے ہوں گے مگر جو ایکٹ منظور ہوا اس میں کارروائی کو اس حد تک خُفیہ رکھنے کا اہتمام کیا گیا کہ وکیل تک کو کوئی بات افشاکرنے پر دو سال کی سزا تجویز کر دی گئی۔ مزید برآں ملزموں کے حق میں جانے والی بہت سی شقیں مروّجہ قانونِ فوجداری سے حذف کر دی گئیں۔ اخفاء کے اس غیر معمولی اہتمام نے مدعیوں کے موقف کو بے حد مشکوک بنا دیا۔ ایسے میں سرکاری راز تو صیغۂ راز ہی میںرہے مگر اسیروں کا نقطۂ نظر فیضؔ کی شاعری بن کر خوشبو کی مانند گھر گھر پھیل گیا:

پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوانِ ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں
ہاں جُرمِ وفا دیکھئے کس کس پہ ہے ثابت
وہ سارے خطاکار سرِدار کھڑے ہیں
……
ہے اہلِ دل کے لیے کہ اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد
……
بنے ہیں الِ ہوس مدعی بھی، مُنصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے مُنصفی چاہیں؟

جب صبا کی مست خرامی کسی بھی ضابطے سے تہِ کمند نہ لائی جا سکی تو دستِ صبا نے اہلِ دل اور اہلِ ہوس کی اس پیکار کے راز دُور و نزدیک آشکار کر دیئے۔ رُوسی مؤرخین گانکوسکی اور گورڈن پولونسکایا نے لکھا ہے کہ جنرل اکبر:

’’اُن نوجوان افسروں کی بالادستی، برٹش افسروں کی بدعنوانی اور برطانیہ کی طرف سے اسلحہ کی ترسیل کے ضمن میں وعدہ خلافی پر نالاں تھے۔ جمہوری تحریک سے شدید طور پر متاثر افسروں کی مخالفت نے حکمران طبقے اور اس کے حلیف سامراجی حلقوں کو بوکھلا دیا تھا……پاکستان کے اندر اور باہر کے رجعت پسند عناصر نے یہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ پاکستان کے اشتراکی، سازش کے منصوبے کے اصل محرک اور منتظم ہیں۔ یہ پھیلتی ہوئی جمہوری تحریک کو کُچلنے کا ایک بہانہ تھا… مسلم لیگ کی قیادت اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر ترقی پسند تحریک کے رہنمائوں پر جھپٹ پڑی حالانکہ ان لوگوں کا راولپنڈی کیس سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا۔ (۱۰)‘‘

یہ بیان زیادہ سے زیادہ نیم صداقت کا درجہ رکھتا ہے۔ خود سجاد ظہیرؔ نے طارق علیؔ سے بیان کیا تھا کہ وہ ایک کاک ٹیل پارٹی میں جنرل اکبر خان سے ملے تھے اور جنرل موصوف نے منشور مرتب کرنے اور لائحہ عمل تیار کرنے میں مدد مانگی تھی اور اشتراکی جماعت کی قیادت نے یہ پیش کش قبول کر لی تھی مگر بالآخر اس منصوبے کو ترک کر دیا گیا تھا۔ (۱۱) خلیق انجم کے ساتھ اپنے انٹرویو میں سجاد ظہیرؔ نے زیادہ تفصیل میں جانا مناسب سمجھا ہے:

’’جنرل اکبر خان کے اصرار پر ایک دن فیض احمد فیضؔ اور سجاد ظہیرؔ راولپنڈی گئے۔ وہاں ایک میٹنگ ہوئی جس میں پندرہ فوجی افسر تھے۔ سجادؔ صاحب اور فیضؔ کے علاوہ محمد حسین عطا بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں جنرل اکبر خان نے بغاوت کی پوری اسکیم پیش کی، جس پر گفتگو ہوئی۔ بعض افسروں نے مشورہ دیا کہ ابھی بغاوت مناسب نہیں ہے۔ صورتِ حال کا جائزہ لے کر سجادؔ صاحب نے مشورہ دیا کہ ابھی بغاوت نہ کیجیے۔ اکبر خان نے میرا مشورہ مان لیا اور معاملہ تقریباً ختم ہو گیا۔ (۱۲)‘‘

فیضؔ کا اپنا بیان بہت صاف اور سیدھا ہے۔ طاہر مسعودؔ کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس مسئلے پر یوں روشنی ڈالی ہے:

’’چونکہ ہم فوج میں رہ چکے تھے اس لیے بہت سے فوجی افسر ہمارے دوست تھے۔ ان سے ہمارے ذاتی مراسم تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن سے ہمارے سیاسی نظریات ہم آہنگ تھے۔ قصّہ صرف اتنا تھا کہ ہم لوگوں نے ایک دن بیٹھ کر بات کی کہ اس ملک میں کیا ہونا چاہیے؟ کس طریقے سے یہاں کے حالات بہتر بنائے جائیں، چونکہ ملک کو بنے ہوئے چار پانچ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور نہ یہاں آئین بنا تھا، نہ سیاست کا ڈھانچہ ٹھیک طریقے سے منظم ہوا تھا۔ ملک کی برّی، بحری اور ہوائی افواج کے سربراہ لیاقت علی خان تھے۔ کشمیر کاقصّہ بھی تھا۔ غرضیکہ اس طرح کے مسائل تھے جن پر عموماً گفتگو رہتی تھی۔ چونکہ ان دوستوں سے میرے ذاتی مراسم تھے اس لیے ہم بھی ان کی گفتگو میں شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے خود ہی ساری منصوبہ بندی کی اور ہم سے کہا ہماری بات سنیے۔ ہم نے اُن کی بات سُن لی، پھر انہوں نے خود ہی فیصلہ کیا کہ حکومت کا تختہ نہیں اُلٹنا ہے…لیکن ہم پر مقدمہ اس کے برعکس بنایا گیا۔ دوسری طرف استغاثہ کے جو جو انچارج تھے انہوں نے ہمیں بتایا کہ آپ لوگوں کی ساری باتیں ٹھیک تھیں یعنی یہ کہ آپ لوگ ملے تھے، آپ نے گفتگو کی تھی، آپ نے طے کیا تھا کہ حکومت کا تختہ نہیں اُلٹنا ہے۔ ہم نے صرف اپنی طرف سے یہ اضافہ کر دیا تھا کہ آپ نے حکومت کا تختہ اُلٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ (۱۳)‘‘

گویا جنرل اکبر خان اور اُن کے ساتھیوں نے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی منصوبہ بندی کی اور پھر یہ منصوبہ ترک کر دیا۔ بلاشبہ یہ سازش تھی اور اس ناکردہ کاری کی سزا نہیں ملی مگر ایک دوسری سازش اُن لوگوں نے کی جنہوں نے نفی کو اثبات کا رنگ دے کر ہماری فوج کے قوم پرست جانبازوں کو حریّت فکر و عمل کی سزا دی اور دوسری سازش کی وجہ سے ہی مقدمہ کی کارروائی کو خفیہ رکھا گیا۔ حمید نظامیؔ مرحوم نے ۲۰مئی ۱۹۵۱ء کو اپنی نجی ڈائری میں لکھا کہ:

’’آج میجر جنرل نذیر احمد کو بھی مقدمہ سازش راولپنڈی کے سلسلہ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ خُدا رحم کرے۔ یہ کیا سلسلہ ہے؟ میجر جنرل نذیر بڑی اچھی شہرت کے مالک اور ایک قابل فوجی افسر ہیں۔ ایئرکموڈور جنجوعہ کو اس سے قبل گرفتار کیا جا چکا ہے وہ بھی بڑے قابل افسر بیان کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی افواج کے بعض قابل ترین افسر اس مقدمہ میں گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ یہ اصحاب مجرم ہیں یا بے گناہ؟ اس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی۔ ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا کہ ان پر الزامات کی تفصیل کیا ہے؟ مگر بہر صورت یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اتنے قابل اور اعلیٰ افسر سازش کے ایک مقدمہ میں ماخوذ ہیں۔ فوج کی نیشنلائزیشن کی مہم کو اس مقدمہ اور ان گرفتاریوں کی وجہ سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ (۱۴)‘‘

اس دوسری سازش کا سِرا انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی کے ہاتھ میں ہے جو جاتے جاتے ایوب خان کو فوج میں ’’ینگ تُرک پارٹی‘‘ کے وجود سے متنبہ کرتا گیا تھا اور جس نے لیاقت علی خان کو قوم پرست افسروں سے ڈرنا سکھایا تھا۔ افسوس، صد افسوس کہ ہمارے حکمران طبقہ نے ’’ینگ تُرک پارٹی‘‘ کے جذبۂِ حریّت سے تعمیرِ پاکستان کا کام لینے کی بجائے اسے بدنام کرنے اور نتیجتاً قومی معاملات کو قوم سے چھپانے کی سامراجی روش اپنائی اور یوں ’’فوج کی نیشنلائزیشن کی مہم‘‘ ہی کو نہیں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کی مہم کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو مقدمۂِ سازش، سازشِ اغیار ہی ٹھہرتا ہے۔

حوالہ جات

(۱) ڈاکٹر ایوب مرزا، ہم کہ ٹھہرے اجنبی، صفحہ ۱۶۴
(۲) محمد ایوب خان، فرینڈز ناٹ ماسٹرز (انگریزی)، آکسفور، ۱۹۶۷ء، صفحہ ۳۵۔ ۳۶
(۳) ایضاً، صفحہ ۳۸
(۴) میجر جنرل شیر علی پٹودی، دی سٹوری آف سولجرنگ پالیٹکس (انگریزی)، لاہور، ۱۹۷۸ء، صفحہ ۱۳۲
(۵) ہفت روزہ اشتراک، لاہور، ۲۱ مئی ۱۹۷۲ء
(۶) فیض احمد فیض، میجر اسحاق کی یاد میں، مطبوعہ ’میجر اسحاق معاصرین کی نظر میں، فیصل آباد، ۸۴ء، صفحہ۱۹
(۷) ’کچھ پنڈی کیس کے بارے میں‘، مطبوعہ نوائے وقت میگزین، لاہور، ۲۲فروری۱۹۸۵ء
(۸) روزنامہ ڈان، کراچی، ۱۶نومبر۱۹۸۴ء
(۹) کچھ پنڈی کیس کے بارے میں، نوائے وقت، لاہور، ۲۲فروری ۱۹۸۵ء،
(۱۰) اے ہسٹری اف پاکستان (انگریزی) مطبوعہ پیپلز پلشنگ ہائوس، لاہور، صفحہ ۱۷۵
(۱۱) طارق علی، پاکستان ملٹری رُول آر پیپلز پاور( انگریزی)، نیویارک، ۱۹۷۰ء، صفحہ ۴۵
(۱۲) خلیق انجم، فیض احمد فیضؔ، دہلی، ۱۹۸۵ء، صفحہ ۹۸
(۱۳) ایضاً، صفحہ ۳۰۸
(۱۴) بیگم محمودہ حمید نظامی، نشانِ منزل، لاہور، ۱۹۷۰ء، صفحہ ۱۶

close