وہ کسی متمول خاندان میں پیدا نہیں ہوا، اس نے کسی بڑے کیا عام تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل نہ کی۔ اس کا بچپن اور جوانی انہی تکلیفوں کو برداشت کرتے گذری جو ملک کے نوے فیصد کا نصیب ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایسے کسی شخص کی لئے زندگی کیا ہے محض ایک بوجھ جس کے ہونے یا نہ ہونے کی کوئی اہمیت نہیں لیکن وہ زندگی جیا اور بھر پور زندگی جیا۔ اس نے اپنی محنت اور لگن سے وہ سب حاصل کیا جس کا کوئی خواب دیکھ سکتا ہے۔ عزت، شہرت معاشرے میں مقام۔ کوئی کمی اس کے راستے کا پتھر نہ بن سکی۔
ان کا شمار ملک کے ان صحافیوں اور کالم نگاروں میں ہوتا ہے جن کی تعداد کا شمار کرنے بیٹھیں تو گنتی دو ہندسوں سے آگے نہیں جاتی۔ یادوں اور باتوں کی فلم ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ زمانہ طالبعلمی میں ان کے کالموں سے شناسائی ہوئی۔
دوست احباب کالج یونیورسٹی پہنچنے پر پوچھا کرتے کہ آج “سویرے سویرے” کس کے”گریبان” میں جھانک کر “غیر سیاسی باتیں” پڑھ کر آئے ہو۔ وقت گزرا ۔۔ صحافت میں آنے کی وجہ سے ان بزرگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اپنے بنیادی نظریات پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے جینے کا حق تسلیم بھی کرتے اور اس کے لئے قلمی جنگ بھی لڑتے۔
دوست احباب، اللہ انہیں سلامت رکھے بہت ہیں لیکن میرا دکھ لاہور اور صحافت بڑے لوگوں سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔ عبدالقادر حسن نہ رہے، کوئی نہیں رہا جو لاپرواہیوں پر پیار سے ڈانٹے۔
منو بھائی نہ رہے جو دیکھتے ہی کہتے خیر نال آیاں اے۔عباس اطہر نہ رہے جن کا سارا پیار اور غصہ ایک لفظ میں سمویا ہوتا تھا، گندا۔
نذیر ناجی بھی چلے گئے جن کو ملنے جاتے تو بانہیں پھیلا کر استقبال کرتے اوئے اسلام آباد سے میرا بھتیجا آیا ہے۔ یہی زندگی ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اس کو واپس اپنے رب کے پاس لوٹنا ہے۔ یا اللہ ہمارے بزرگوں کی لغزشوں کو معاف کرتے ہوئے ان سے آسانی والا معاملہ فرما کہ زندگی میں یہ کبھی تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوئے تھے۔
علی اکبر عباس صاحب اور انیق ناجی صاحب اللہ پاک آپ اور دیگر سوگوارون کو صبر عطاء فرمائے آمین
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں