مسئلہ فلسطین کی دن بدن بدلتی ہوئی صورتحال پر مغرب میں کیا تبدیلی پیدا ہورہی ہے یہ بہت بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ گوکہ اس ہفتے کے کالم میں جوکہ گذشتہ منگل کو تحریر کیا گیا تھا اس میں برطانوی پرنٹ میڈیا کا احوال درج ہے لیکن اس کے بعد سے ہر روز ایک نئی ڈویلپمنٹ ہورہی ہے۔ سب سے زیادہ اہم ترین بات یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے کے تمام اسٹیک ہولڈرز چاھئے ان کا تعلق الفتح کی مرکزی حکومت سے ہو یا پھر سوشلسٹ نظریے کے حامل ہوں سب اس بات پر متفق ہیں کہ حماس کی کاروائیوں پر وہ حماس کے ساتھ ہیں یہ اس خطے میں موجود مسئلہ فلسطین سے براہ راست منسلک جماعتوں و مختلف نظریات کے حامی افراد کا ایک موقف اختیار کرنا حماس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے،
بی بی سی کے پروگرام میں فلسطین کے برطانیہ میں سفیر حسام نے اینکر کے سوال پر سوال کرکے ناظرین کو نہ صرف حیرت زدہ کردیا بلکہ اس موقف کا اعادہ بھی کیا کہ اوسلو اور ابراہیمی معاہدے کے باوجود بھی اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم پر کوئی رکاوٹ نہیں لگائی جاسکی اور حماس کی کاروائیاں اہل فلسطین پر روا رکھنے جانے والے اسرائیلی مظالم کا جواب ہیں۔ یہی کچھ صورتحال سی این این پر پیش آئی کہ جہاں معروف ماہر تعلیم و اینکر فرید زکریا کے پروگرام میں سابق فلسطینی وزیر جن کا خود تعلق حماس سے نہیں ہے ڈٹ کر حماس کے موقف کی بھر پور تائید کی۔ اس کے بعد سے اب صورت حال یہ ہے فلسطین کے حق میں اٹھنے والی آوازوں میں اب شدت آرہی ہے۔ خود برطانیہ میں میڈیا کی یکطرفہ مہم جوئی کے باوجود عوام میں اس کے خلاف ایک رائے عامہ پائی جاتی ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے برطانوی وقت کے مطابق رات کے آخری پہر جب غزہ پر اسرائیل نے بمباری شروع کی تو ایک بڑی تعداد میں لوگ صبح طلوع آفتاب سے قبل ہی لندن کے علاقے کنزنگٹن میں موجود اسرائیلی سفارت خانے کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہوگئے ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی اطراف کی سڑکوں تک مظاہرین پھیل گئے۔ اس کے بعد سے برطانوی سیاستدانوں کے بیانات میں ایک توازن نظر آیا خاص طور پر بی بی سی نے دانستہ کوشش کی کہ اس مسئلے پر کسی حد تک دونوں اطراف کا موقف پیش کیا جائے۔
بی بی سی کے معروف ترین ریڈیو چینل 4 نے جمعرات 12 اکتوبر کی صبح ایک خصوصی رپورٹ نشر کی کہ جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ برطانیہ میں مسلمان و یہودی پر امن طور پر احترام باہمی کے تحت رہ رہے ہیں اس میں مانچسٹر کے شمال میں واقع چیتم ہل کو موضوع بنایا گیا جوکہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور اس سے چند قدم کے فاصلے پر یہودی مذہب کے ماننے والے بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں اور انکی بڑی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں۔ اس پوری رپورٹ میں مذہبی رواداری کا درس دیا گیا لیکن یہ صورتحال کیوں پیش آئی اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے ردعمل میں مبینہ طور پر لندن میں ایک یہودی کوشر ریسٹورنٹ کو چند عناصر کی جانب سے نشانہ بنایا گیا اور اس میں توڑ پھوڑ ہوئی۔ اس کے بعد آج 13 اکتوبر 2023 کو برطانوی ریڈیو بی بی سی نے خبر نشر کی ہے کہ غزہ کی تازہ صورت حال میں برطانیہ میں یہودی مذہب کے ماننے والوں کے خلاف نفرت آمیز سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر برطانیہ میں میڈیا کی مہم جوئی یکطرفہ طور پر جاری رہتی ہے اور بی بی سی بھی اس ہی صف میں کھڑا ہوجاتا ہے تو اس سے یہ تاثر مزید گہرا ہوگا کہ اسرائیل یہ سب کچھ برطانیہ کی آشیرباد سے کررہا ہے لہذا اس سے برطانوی معاشرے میں بسنے والے 15 لاکھ سے زائد مسلمان اس مسئلہ پر اپنا ردعمل دیں گے جوکہ بہت خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ لہذا اب بی بی سی کی جانب سے شعوری طور پر یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس کو زیادہ نہ بڑھایا جائے تاہم حکومتی اقدامات اس کے برعکس ہی نظر آرہے ہیں کہ جہاں غزہ میں محصور 23 لاکھ افراد کے لیے برطانیہ سمیت کوئی مغربی طاقت بھی کسی قسم کی کوئی امداد جاری نہیں کررہی ہے۔
غزہ کا مسئلہ جتنا طویل ہوگا اتنا ہی مغرب میں اس کا ردعمل سامنے آئے گا۔ اس میں اب کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ حماس کی کاروائیوں نے خود مغرب کو پریشانی میں مبتلاء کردیا ہے کہ جہاں ایک جانب اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کے روڈ میپ کر رول بیک کیا جارہا ہے وہیں 23 لاکھ افراد کا انسانی المیہ اب ہر روز بڑھ رہا ہے کل تک تو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید لوگ کسی توجہ کا مرکز نہیں تھے آج پوری دنیا کی توجہ اس جانب ہے۔ مسلم دنیا میں بھی اضطراب سامنے آرہاہے آج بروز جمعہ پورے عالم عرب میں اسرائیل کی جس طرح مذمت کی گئی اس کو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے حماس کی ایک بڑی کامیابی کے طور دیکھا جارہا ہے۔ سب سے اہم ترین بات جس کا تذکرہ خبروں میں کہیں گم ہوگیا وہ یہ ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حماس نے ان جگہوں سے اسرائیل پر حملہ کیا کہ جہاں بارڈرز پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی سے بارڈر پر نگرانی کی جارہی تھی اور صرف ایک تھوڑے سے بارڈر کی نگرانی کے لیے اس سسٹم کا منصوبہ ایک ارب امریکی ڈالر میں مکمل ہوا تھا۔ اس حوالے سے اسرائیل کی یہ دوہری ناکامی ہے کہ جہاں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کی ناکامی کی وجہ سے اسرائیلی شہری غیر محفوظ ہوئے وہیں آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کے بڑے مرکز اسرائیل کو اب اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ پذیرائی نہیں ملے گی جس کا دعویٰ کیا جارہا تھا یہ حملہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی اسرائیلی معیشت کو بھی بہت بڑا دھچکہ ہے اس کا اندازہ آنے والوں دنوں میں ھوگا۔
کل ایک یہودی مذھب کے ماننے والے سے ملاقات ہوئی باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ یہاں برطانیہ میں شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے آیا تھا پیشے کے حوالےسے انجینئر ہے اور بیت المقدس میں قیام پذیر ہے اس کی بیوی طب کے شعبے سے وابستہ اور اب فلائٹس کی بندش کی وجہ سے وہ اسرائیل نہیں جاسکتے لہذا وہ اپنی سسرال یورپ کے ایک ملک جارہا ہے۔ میں نے سوال کیا اس کے نزدیک مسئلے کا کیا حل ہے اس کا جواب تھا حماس کا مکمل خاتمہ، اس نے مزید کہا کہ اسرائیل کا ہر مرد شہری ریزرو فوجی ہے اور اس کو اب محاذ پر بلایا جارہا ہے لہذا جیسے ہی اس کو فلائٹ میسر آئی وہ وہاں جاکر داد شجاعت دے گا۔ کبھی ہم اب باتوں کو کسی اور سے سنتے تھے تو یقین نہیں آتا تھا لیکن اب خود اپنے کانوں سے سن رہے ہیں اور اس کا مشاہدہ کررہے ہیں تو یقین کی ایک اور منزل ہے۔ حماس کے حوالےسے پروپیگنڈا کو دیکھیں کہ اس نے سیویلیز کو نشانہ بنایا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے غیر فوجی کون ہے؟
سوالات اور بھی ہیں جن کے جواب خود مل رہے ہیں بند گرہیں کھل رہی ہیں، بین الاقوامی ضمیر دیر سے سہی لیکن اب کروٹ بدل رہا ہے، مشرق وسطی کا نقشہ کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے لیکن مشرق وسطیٰ میں ایک بہت بڑی تبدیلی اب کوئی دور نہیں۔ 7 اکتوبر کو مشرق وسطی کی تاریخ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے سو سال کے بعد شاید کہ اب مشرق وسطی کے نقشے میں بڑی تبدیلی آنے کو ہے۔
13 اکتوبر 2023
مانچسٹر، برطانیہ
تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں