9 مئی کے واقعات اور بڑھتے ہوئے قومی مسائل، سینئر صحافی سہیل اقبال بھٹی کا کالم

9 مئی پی ٹی آئی کے لیے تباہی و بربادی کا دن ثابت ہوا۔ اس دن کی بھیانک اورفاش غلطیوں نے عمران خان کو عرش سے فرش پر گرادیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی پاپولرٹی کے عروج کو زوال شروع ہوا اوران کے قریبی ساتھی اور پارٹی رہنما یکے بعد دیگرے انھیں چھوڑ کرسیاست سے ہی کنارہ کش ہوگئے۔

9 مئی کے خوفناک اور افسوسناک واقعات کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لیے بھلانا آسان نہیں ہے۔ اس دن فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک کو جلاکر اربوں روپے کا جو نقصان پہنچایا گیا۔ قومی ہیروز کی یاد گاروں کو مسمار کرکے شہداء کے وارثین کی روح کواذیت اور تکلیف دی گئی۔ ان زخموں کو بھرنے میں مدتیں لگیں گی۔ قوم اور ملکی سرحدوں کے محافظ اس دن کو یوم سیاہ قرار دے چکے ہیں لیکن خود پاکستان تحریک انصاف (اگر رہی تو) بھی یہ دن کبھی بھلا نہیں پائی گی۔

سابق وزیراعظم عمران خان اب مٹھی بھرپارٹی رہنماؤں کے ساتھ پی ٹی آئی کی جھولتی عمارتی کو سہارا دیے رکھے ہیں۔ تند و تیز آندھی میں تحریک انصاف کی بنیاد کب تک کھڑی رہتی ہے چند ہفتوں میں سب معلوم ہو جائے گا۔ تحریک انصاف پر بدترین اور براوقت کیوں آیا؟ کس نے ملک کی مقبول ترین پارٹی کو بند گلی میں لاکراس پر خودکش حملہ کیا۔ سابق حکمران جماعت کو صرف چند دنوں میں ہی ایڑیاں اور ناک رگڑوانے کے لیے چوک چوراہوں پر کون لایا؟

ان سوالوں کا ایک ہی جواب ہے، عمران خان۔ جی ہاں، سابق وزیراعظم عمران خان سیاست کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھتے رہے۔ وہ جب تک کرکٹررہے، ٹیم کپتان کے طور پربیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ سمیت ہر فیصلہ خود کرتے رہے۔ ٹیم کی سلیکشن ان کے بغیرمکمل نہیں ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ امپائرزکے چناؤ میں بھی ان کا عمل دخل رہا۔

عمران خان کو کرکٹ سے الگ ہوئے کئی سال بیت گئے مگر ان کی سوچ کپتان والی ہی رہی۔ وہ پارٹی اور سیاست میں بھی خود کو کپتان تصور کرتے رہے۔ وہ اپنا ہر فیصلہ آخری فیصلہ سمجھتے رہے، اپنی بات کو حرف آخر مانتے رہے۔ سیاست میں ہوں یا اقتدار میں، انھوں نے سیاسی حریفوں تو کجا اپنی پارٹی کی لیڈر شپ کی بھی ایک نہ سنی۔ اسی لیے حالات یہاں تک آگئے کہ وہ تنہا رہ گئے۔ کاش عمران خان نے مخالفین کی بار بار مذاکرات کی آفر کو سنجیدہ لیا ہوتا۔ کاش انھوں نے اپنی پارٹی کے سنجیدہ لوگوں کا مشورہ مانا ہوتا تو شاید آج انھیں پارٹی کی بربادی کے بھاری مناظر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھنا پڑتے۔

عمران خان کی سنگین غلطیوں، خوفناک فیصلوں اور خطرناک بیانیے سے پی ٹی آئی ٹانگہ پارٹی بننے کی قریب پہنچ گئی ہے لیکن اب جو کچھ ہورہا ہے یہ قطعاً جمہوریت اور ملکی سیاست کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ 9 مئی کے واقعات میں جو جو ملوث ہیں، جنھوں نے سہولت کاری کی یا ذہن سازی، ان سب کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ انھیں عبرت کا نشان بنانا ضروری ہے مگر ایک بوٹی کے لیے پورے بکرے کو ذبح کرنا ہرگز دانش اور حکمت نہیں ہے۔ پاک فوج کی تکریم اور بھرم قائم رہنا چاہیے۔

شہداء کی تکریم اور تقدس بھی شرعی اور قومی تقاضا ہے۔ ملک کا بچہ بچہ اپنے شہداء کو قوم کے ماتھے کا جھومر سمجھتا ہے۔ ہم ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ پاک فوج کو ملکی سلامتی اور خود مختاری کی ضامن ہے اور رہے گی۔ اس میں کسی کو رتی بھر شک نہیں۔ البتہ چند شرپسندوں کی وجہ سے ملک میں سیاست اور جمہوریت کا گلہ دبانا بھی اچھا نہیں۔ ملک کے تمام معتبر اداروں کو صبر و تحمل کے ساتھ دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عمران خان نے ملک کو تماشابنایا۔ پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ اب ملک کے تشخص کو مزید نقصان نہ پہنچایا جائے کیونکہ سنگین بحرانوں اور مسائل کے دلدل میں پھنسا پاکستان اس کا متحمل نہیں ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان 75 سال سے سیاسی اور معاشی میدان میں آگے جانے کے بجائے سرکل میں ہی گھوم رہا ہے۔ ہم خول سے نکل ہی نہیں پارہے ہیں۔ یہ دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں کوئی حکومت پانچ سال پوری نہیں کرتی۔ یہاں جمہوریت ، نظام اور انصاف برائے نام ہے۔

ایسے میں نئی نئی پارٹی بنانے اور توڑنے کا نیا تجربہ قومی مفاد میں نہیں ہے۔ قوم پر نئے نام نہاد لیڈر یا پارٹیاں سوار کرنے سے ملک ترقی اور خوشحالی کے ٹریک پر نہیں چڑھ سکتا الٹا پیچھے ہی جائے گا۔ پاکستان کی آبادی 25 کروڑ کے لگ بھگ ہوچکی ہے اور اس میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں لے کر روز گار کے لیے ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ ان نوجوانوں کے مستقبل کا سوچنا تمام لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے ورنہ بے روز گاروں کی فوج بڑھے گی تو مسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔

حکومت اور فوج کے جانب سے 9 مئی کے شرپسندوں کو ان کے کیے کی سزا دلانے کے عزم کے اظہار اس بات کا عکاس ہے کہ بلوائی بچ نہیں پائیں گے لیکن ہمارا صرف یہ مسئلہ نہیں۔ پاکستان کے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، معیشت کا برا حال ہے، سیاسی صورتحال بھی ابتری کا شکار ہے، حتیٰ کہ آئینی بحران بھی ختم نہیں ہورہا ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری برائے نام ہے۔

ترقیاتی کام رکا ہوا ہے، صنعتی شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ کاروبار تباہ ہے اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اتنے مسائل ہیں کہ اب گنے بھی نہیں جاتے۔ موجودہ حکومت کے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ 2023ء ملک میں الیکشن کا سال ہے ایسے میں اگرسیاسی دھینگا مشتی اور پکڑ دھکڑنہ رک نہ سکی تو بحرانوں میں مزید شدت آئے گی۔ اسی لیے سیاست دانوں، حکمرانوں اور اداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔

ہٹ دھرمی اور ضد کو اب بھی نہ چھوڑا گیا تو عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حب الوطنی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جو دیر پا ہوں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی جائے۔ جس طرح حکومت اور اداروں نے 9 مئی کے شرپسندوں کا قلع قمع کرنے کے لیے کمر کس لی اسی طرح مسائل کے خاتمے اور بحرانوں کے حل کے لیے بھی ایک پیج پر جمع ہو کر تند و تیز مہم شروع کرتے ہوئے عوامی اعتماد اور قومی یگانگت کویقینی بنایاجائے۔

الیکشن سر پر ہیں اور وقت کم ہے۔ پکڑ دھکڑ سے عوام کا سیاست سے اعتماد اٹھ رہا ہے اس سلسلہ کو کہیں روکنے کی ضرورت ہے۔ خود پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ طاقت کا محور عوام اور پارلیمنٹ ہے۔ امید ہے الیکشن میں عوام اپنی طاقت دکھا کر ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے والوں سے حساب چکتا کردیں گے۔ عوام ان لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیجیں گے جو حقیقت میں قوم کے خیر خواہ ہوں گے اور محب وطن بھی۔۔۔۔

تازہ ترین خبروں کے لیے پی این آئی کا فیس بک پیج فالو کریں